• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

جو اپنے ادارے میں ون مین شو چلا رہے ہیں وہی پورے ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں، بلاول بھٹو

شائع May 15, 2023
بلاول بھٹو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے—فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عدلیہ پر سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے سہولت کاری کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو اپنے ادارے میں ون مین شو چلا رہے ہیں وہی پورے ملک میں ون مین شو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب یہاں ہم عدم اعتماد لے کر آئے تو آرٹیکل 5 کا بہانہ استعمال کرکے انہوں نے آئین توڑوایا، تب کچھ نہیں کیا گیا، نہ ہم نے کچھ کیا، حکومت نے بھی کچھ نہیں کیا اور نہ ہماری عدالتوں نے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کا سوال آتا ہے تو راتوں رات فیصلہ کرتے ہیں 90 دن میں انتخابات کرو، جب یہاں عدم اعتماد کا سوال تھا تو ایک مہینے پیشیاں بھگت رہےہیں تاکہ عدم اعتماد کا حق چھینا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کی کوشش تھی کہ کسی طرح اسمبلی توڑے اور فی الفور انتخابات کروائے جائیں جب تک ان کے سہولت کار اداروں میں موجود ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اس دن ناکام لیکن وہ سازش چلتی رہی لیکن ایوان سے کوئی جواب نہیں آیا، 25 مئی کو ہم عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) سے معاہدہ کر رہے تھے اور دنیا سے بات کر رہے تھے لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے خزانہ سے سابق وفاقی وزیر فون پر بات کرتے ہوئے پکڑے گئے، جو ریاست کے خلاف سازش کر رہے تھے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ سبوتاژ کرنے کی سازش کر رہے تھے، 25 مئی کو جب یہاں آکر انہوں پورے اسلام آباد کو جلایا، تب بھی ہم نے کچھ نہیں کیا، تب بھی عدالتوں نے کچھ نہیں کیا، ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوا اور سازش چلتی رہی اور چور دروازے سے ان کے سہولت کاروں نے سہولت دی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ہمت کرتے ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں تو یہ ایسے ہار جاتا ہے، ہم نے یہ بار بار دکھایا ہے، کتنے ضمنی انتخاب میں ہرایا، ڈسکہ میں کس طرح دھاندلی سے انتخاب روکنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوا اور رکن آج یہاں اسمبلی میں موجود ہیں، موسیٰ گیلانی، حکیم بلوچ یہاں موجود ہیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اگر آپ مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں تو یہ ہار سکتا ہے لیکن ہم کسی سازش کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں تھے، سازش یہ تھی کہ آپ پہلے پنجاب میں صرف انتخابات کراؤ اور پھر اس کے بعد دیگر صوبوں میں انتخابات کراؤ، ون یونٹ قائم کرے اور پھر ٹائیگر فورس کے لیے جو سازش ابھی تک چلتی رہی ہے کہ ہر ادارے میں ٹائیگر فورس ہو اور پورے ملک میں ون مین شو چلے۔

انہوں نے کہا کہ جو ون مین شو اپنے ادارے میں چلا رہے ہیں، وہ پورا ملک میں ون مین شو نافذ کرنا چاہتے ہیں، ہم اس سازش کرنا جانتے ہیں اور اس سازش کا مقابلہ کریں گے، اپنی جمہوریت اور پارلیمان بچائیں گے اور اس فتنے کا بندوبست کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مسئلہ معیشت ہے، ملک کے کونے کونے میں عوام مشکل معاشی حالات سے گزر رہے ہیں، ان کو فکر نہیں ہے کہ اس کرسی میں کون بیٹھا ہے، وہ چاہتےہیں ان کے مسائل حل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پوری حکومت کبھی اسلام آباد اور کبھی جناح ہاؤس اسلام آباد کی آگ بجھا رہے ہیں تو ہمیں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے موقع کب ملے گا۔

’پی ٹی آئی کے پاس آخری موقع ہے‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کا آخری موقع ہے وہ فیصلہ کرے کہ وہ سیاست دان بننا چاہتے ہیں، سیاسی جماعت بننا چاہتے ہیں، اگر وہ سیاسی جماعت رہنا چاہتے ہیں تو ان کا جو دہشت گردی کا واقعات کی مذمت کرنا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک پی ٹی آئی جلاؤ گھیراؤ پر معافی نہیں مانگتی اس وقت تک چیف جسٹس سمیت کسی کے کہنے پر عمران خان کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے ہم بتائیں کہ انتخابات کیوں نہیں ہو رہے ہیں، ہمیں تو پتا ہے، انتخابات نہیں ہوسکتے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین کے مقابلہ میں چار ججوں کے فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے، پاکستان اس وقت جس مشکل میں پڑا ہے اور رٹ چیلنج ہوئی ہے اور سیاسی افراتفری کا ذمہ دار پارلیمنٹ نہیں بلکہ ہمارا ہمسایہ ادارہ ہے، جب وہ خود ایسے فیصلے کریں گے کہ آئین کا مطلب جو چیز آئین کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے وہ نہیں بلکہ کسی جج کی مرضی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ فیصلہ کریں گے کہ قانون کا مطلب کاغذ پر لکھا ہوا نہیں بلکہ ججز جو کہتے ہیں وہ قانون ہوگا تو پھر سیاسی افراتفری نہیں ہوگی تو کیا ہوگی، یہ کوئی قانون کی بالادستی ہے۔

’عدالت نے جو کرنا تھا وہ کر چکی ہے‘

چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ تاریخ یاد رکھے گی ہمارا چیف جسٹس جب جی ایچ کیو اور جناح ہاؤس پر حملہ ہوا تو اس کی مذمت کرنے اور ملزمان کے خلاف از خود نوٹس لینے کے بجائے کہہ رہا تھا کہ آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ذمہ داری بالآخر ہماری ہے کہ ہم اس ریاست، جمہوریت اور اس نظام کو صحیح سمت پر لے کر آئیں، سارے ادارے اپنے دائرے میں رہ کام کریں تاکہ ہم عوام کے مسائل حل کرسکیں۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت نے جو کرنا تھا اب وہ کرچکی ہے، بہت سارے مقدمات زیر التوا ہیں، چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے لیے چند مہینے رہتے ہیں، جتنے زیرالتوا مقدمات ہیں وہ پورے کریں تو کچھ پیچھے چھوڑ کر جاسکتے ہیں، اگر سیاست میں مداخلت کریں گے اور اسی خان صاحب کو ریلیف دیتے رہیں گے، یہ ریلیف کا کام کی کہانی آج سے نہیں ہے، یہی چیف جسٹس جب جسٹس تھا تو پشاور کا جو بی آرٹی کا کیس ہے وہ پورے خیبرپختونخوا میں اتنا مشہور ہے کہ کرپشن سے پوری پی ٹی آئی کی فنڈنگ اس وقت بھی ہو رہی تھی اور آج تک ہو رہی ہے لیکن جب نیب نے کارروائی کی تو اسی جسٹس صاحب نے اسٹے آرڈر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’جب ڈسکہ میں دھاندلی ہوئی تو اسی عدالت نے اس دھاندلی کے خلاف جو کارروائی ہونا تھی وہ رکوا دی، ان کے ڈپٹی اسپیکر کے بارے میں پتا چلا کہ دھاندلی سے منتخب ہوا ہے اور ان کے پولنگ بیگز کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ ہاتھوں اور پیروں سے بھی انگوٹھوں کے نشانات لگائے گئے ہیں، الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب کا فیصلہ کیا تو میں غلط نہیں ہوں تو اس پر بھی جسٹس بندیال صاحب نے اسٹے دیا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 19 کروڑ پاؤنڈ کا سوال آیا تو میاں بیوی کو اب عدالت ریلیف دے رہی ہے، اس عدالت نے نہ دہشت گردوں کو پکڑنا ہے، نہ چوروں کو پکڑنا، نہ قانون توڑنے والے کو پکڑنا ہے، نہ آئین توڑنے والے کو پکڑنا ہے، اگر اسی طرح نظام چلتا رہے گا تو یہ نظام چل نہیں سکے گا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس بحران اور سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے ہم سے جو ہوسکا وہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

نیب ترامیم بل 2023 منظور

اس سے قبل پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی احتساب ترمیمی بل 2023 کی منظوری دے دی گئی۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے قومی احتساب بیورو(نیب) قانون میں ترامیم پیش کیں اور اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ صدر مملکت نے خط میں لکھا کہ کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے قانون سازہ ادارہ قانون سازی نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ یہ اختیار نہیں رکھتا کہ اس بالا ایوان کا قانون سازی کے اختیار کو روکے، اس پر قدغن لگائے یا وہ کہے کہ یہ قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت پارلیمان کا حصہ ہیں اور انہیں آئین میں دیے گئے اختیارات کا ادراک نہیں ہے کہ اس بالا اور معزز ایوان کے اختیارات کلی اور یکتا ہیں، جس پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔

نیب ترامیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب یہ ترامیم قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوئی تھی تو وضاحت کی تھی کہ یہ پروسیجرل طرز کی ہیں، مقدمات جب نیب کے نئے قانون کے تحت نیب کے دائرہ اختیار سے نکلے تو ان کو متعلقہ فورم پر بھجوانے کے لیے چند مسائل سامنے آرہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھنا تھا کہ عدالت سے ریفرنس واپس آیا تو اس پر عدالت کا ہی کردار ہو تاکہ آرٹیکل 175 میں اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے عدالیہ کیے اختیارات میں مداخلت نہ ہو۔

اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ پارلیمان ہی وہ ادارہ ہے جس کا ظرف بڑا ہے، ہم نے آج تک اس ادارے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی لیکن وہاں سے روز مداخلت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پوری احتیاط کی کہ عدلیہ کی آزادی کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہ ہو اور ان ترامیم صرف وہ پروسیجرل چیزیں درست کی گئیں اور جو سڑکوں پر کھڑے ہو کر تقریریں کرتے تھے اب وہ خود اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم واضح ہے کہ کوئی بھی جرم ختم نہیں ہوا بلکہ فورم تبدیل کیا گیا ہے، جو جرائم نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں وہ اس ترمیم کے بعد متعلقہ فورمز پر جائیں گے۔

وزیرقانون کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے کام میں کچھ رکاوٹ آگئی تھی، اس لیے سہولت دینے کے لیے مزید یہ ترامیم کی گئی ہیں اور ایوان مذکورہ ترامیم کا بل منظور کیا جائے۔

وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڈ نے نیب ترامیم ایکٹ 2023 میں مزید ترامیم پیش کیں اور مذکورہ ترامیم کثرت رائے منظور کرلی گئیں اور اسپیکر نے شق وار اس کی منظوری لی۔

بل کی منظوری کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی طرف سے پیش کردہ ترامیم مسترد کر دی گئیں۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ نیب کو ماضی میں مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا، احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نیب قانون ڈریکونئین قانو نہیں ہونا چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے دانت بھی نہیں نکالنا چاہئیں، نیب کے چیئرمین کا تقرر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہوتا ہے، یہ طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب چیئرمین کی تقرری کے اس قانون میں تبدیلی کی گئی تو مستقبل میں اسے موجودہ برسراقتدار جماعتوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ قوانین کے تحت ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کا الگ طریقہ کار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین اس لیے تعینات ہوتے ہیں کہ چیئرمین کی عدم موجودگی میں ڈپٹی چیئرمین نیب کی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب چیئرمین ملک سے باہر ہوں اور ڈپٹی چیئرمین بھی نہ ہوں تو اس صورت میں وفاقی حکومت تعیناتی کر سکتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024