عمران خان کی گرفتاری، مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 8 افراد جاں بحق
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں بدھ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران کم از کم 8 افراد جاں بحق اور 290 زخمی ہو گئے جبکہ 1900 سے زائد مشتعل مظاہرین کو دھرلیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جہاں ایک طرف پرتشدد واقعات اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا وہیں دوسری جانب اسلام آباد کی احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کو آٹھ دن کے لیے نیب کی تحویل میں دے دیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاج کا سلسلہ بدھ کو دوسرے روز بھی جاری رہا اور پورے دن پولیس اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں جس کے نتیجے میں پولیس اسٹیشنز سمیت سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچا۔
بدھ کو سیکریٹری جنرل اسد عمر کی گرفتاری کے بعد رات گئے پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکومت نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں فوج طلب کر لی ہے جہاں فوج کی آمد سے ایک دن قبل مشتعل مظاہرین نے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ پر دھاوا بولنے کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں جی ایچ کیو کا دروازہ بھی توڑ دیا تھا۔
فوج کی املاک اور تنصیبات پر حملوں کے بعد پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے سخت بیان جاری کیا جہاں اس کے ترجمان نے ان سیاسی جماعتوں کی ’منافقت‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو اپنے محدود اور ذاتی مفادات کے لیے عوام کو استعمال کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ مشتعل ہجوم نے اسلام آباد میں پولیس آفس، لاہور میں پولیس اسٹیشن، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت، لوئر دیر میں چکدارا کے مقام پر اسکاؤٹس فورٹ کو نذر آتش کردیا۔
عمران خان کے حامیوں اور کارکنان نے اسلام آباد میں پولیس لائنز کے باہر ان کے حق میں ریلی نکالی، وہیں دوسری جانب احتساب عدالت کو عبوری طور پر پولیس ہیڈ کوارٹرز منتقل کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین کو نیب کی تحویل میں دے دیا ہے۔
میڈیا کے نمائندوں کو سماعت دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی، نیب عہدیداروں کے مطابق نیب نے عمران خان کا 14 روزہ ریمانڈ دینے کی درخواست کی تھی لیکن عدالت نے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں نیب کے حوالے کردیا۔
نیب نے احتساب عدالت سے عمران خان کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اب وہ سب جیل میں ان سے تفتیش کرے گا۔
نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی کے مطابق نیب چیئرمین عمران خان کی تحویل کے لیے مذکورہ گیسٹ ہاؤس کو سب جیل قررا دے سکتے ہیں اور قومی احتساب آرڈیننس کے تحت ملزم کو حراست میں رکھنے کے لیے چیئرمین کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دے سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان کی درخواست پر کہا کہ گرفتاری غیرقانونی نہیں لیکن انہیں جس طریقے سے حراست میں لیا گیا، اس پر سوالات اٹھائے جبکہ عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز بھی کردیا۔
اس کیس میں نیب نے الزام لگایا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملک ریاض کے ساتھ ایک ڈیل کی جس سے قومی خزانے کو 23 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوا۔
احتجاج میں کمی نہ آسکی
اسلام آباد اور راولپنڈی میں پورا دن احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر پنڈی میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مظاہرین مختلف مقامات پر جمع ہوئے۔
اسلام آباد میں جھڑپوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 17 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے جبکہ مشتعل ہجوم نے ایس پی انڈسٹریل ایریا کے دفتر کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ رمنا پولیس اسٹیشن کو بھی نقصان پہنچایا جبکہ ترنول کے قریب ایک ریلوے ٹریک بھی اکھاڑ دیا۔
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف درجنوں مقدمات درج کرتے ہوئے 200 سے زائد کو حراست میں لے لیا، راولپنڈی میں بھی پی ٹی آئی کے 1500 سے زائد حامیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور 190 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا جنہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔
لاہور میں مشتعل افراد نے شادمان پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کرنے کے بعد فرنیچر اور سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، صوبہ پنجاب بالخصوص لاہور میں صورتحال کشیدہ رہی جہاں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔
پی ٹی آئی کے حامیوں اور کارکنوں نے گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھاوا بولنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے انہیں پچھے دھکیل دیا، پولیس کے مطابق 21 سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور 14 سرکاری عمارتوں پر مشتعل ہجوم نے دھاوا بولا۔
ادھر پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے سابق حکمران جماعت کے 1380 مظاہرین کو گرفتار کر لیا اور رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کے ساتھ تصادم میں لاہور کے ڈی آئی جی آپریشن ناصر رضوی، تین ایس پی اور درجنوں ایس ایچ او سمیت 150 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
گوجرانوالہ میں مظاہرے کے دوران نامعلوم افراد نے فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں پیر کی رات راشد نامی شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کے مناظر دیکھنے کو ملے اور مظاہرین نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے قریب واقع ریڈیو پاکستان اور ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے دفاتر کی حامل عمارت پر حملہ کردیا۔
پشاور میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان اس وقت شدید جھڑپیں ہوئیں جب پولیس نے خیبر روڈ پر اہم سرکاری تنصیبات کی جانب گامزن مشتعل ہجوم کو پیش قدمی سے روک دیا اور اس دوران تشدد کے نتیجے میں 7 افراد ہلاک اور 122 زخمی ہو گئے۔
دو افراد صوبائی دارالحکومت پشاور میں جھڑپوں کے دوران مارے گئے جبکہ دو افراد کوہاٹ میں جان کی بازی ہار گئے، منگل کو رات گئے چکدارا کے قریب جھڑپوں میں بھی مظاہرے میں شریک ایک فرد مارا گیا۔