سعودی فرماں روا کی بشارالاسد کو عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت
سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے شام کے صدر بشار الاسد کو خلیجی ملک میں 19 مئی کو ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق شام میں بشار الاسد کے خلاف مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے اس کی رکنیت معطل کیے جانے کے 12 سال بعد عرب وزرائے خارجہ نے اتوار کو اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ شام اس تنظیم میں دوبارہ اپنا کردار شروع کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے ایک بیان میں بشار الاسد نے کہا کہ سربراہی اجلاس ’عرب عوام کی امنگوں کے حصول کے لیے مشترکہ عرب کارروائی کو بڑھا دے گا۔‘
سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق اردن میں سعودی عرب کے سفیر نائف بن بندر السدیری نے دعوت نامہ پہنچایا۔
ایس پی اے نے کہا کہ انہوں نے شاہ اور ان کے بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کی ’چ‘۔
یہ دعوت ریاض اور دمشق کی جانب سے ایک دہائی سے زائد منقطع تعلقات کے بعد شام اور سعودی عرب میں اپنے اپنے سفارتی مشنز پر دوبارہ کام شروع کرنے کا اعلان کرنے کے ایک روز بعد سامنے آئی۔
روڈ میپ
روس نے کہا کہ شام اور ترکی کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ماسکو میں ان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد ایک روڈ میپ تیار کیا جائے گا۔
اس سے قبل بدھ کو ترکی اور شام کے وزرائے خارجہ نے شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے اپنی پہلی باضابطہ میٹنگ کی۔
روسی دارالحکومت میں ہونے والے مذاکرات میں روس اور ایران کے اعلیٰ سفارت کار بھی شریک تھے۔
ماسکو نے ایک بیان میں کہا کہ وزرا نے اپنے نمائندوں کو چاروں ممالک کے وزرائے دفاع اور سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر ترکی اور شام کے درمیان تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ’روڈ میپ‘ تیار کرنے کا کام سونپنے پر اتفاق کیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ’وزرا نے تبادلہ خیال کے مثبت اور تعمیری ماحول کو نوٹ کیا اور اعلیٰ سطح کے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔‘
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ اس کے بعد یہ تجاویز ایران، روس، شام اور ترکی کے رہنماؤں کے سامنے رکھی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے میٹنگ میں کہا کہ ’ہمارا کام مزید پیشرفت کے لیے عمومی ہدایات کا تعین کرنا ہے۔‘
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ تہران شام اور ترکی کے درمیان مذاکرات کے آغاز کا خیر مقدم کرتا ہے۔
قبل ازیں اپریل میں ماسکو نے چار فریقین پر مشتمل مذاکرات کی میزبانی بھی کی تھی جس میں ان ممالک کے وزرائے دفاع شریک ہوئے تھے۔
ترکی نے شام کے صدر بشار الاسد کو گرانے کے لیے باغیوں کی ابتدائی کوششوں کی حمایت کی تھ، اور جنگ زدہ ملک کے شمالی حصوں میں فوجی موجودگی برقرار رکھی جو دمشق کو ناراض کرتی ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پورے خطے میں اپنے سابق حریفوں کے ساتھ ساز باز کر لی ہے اور اب وہ اسد کے ساتھ صدارتی سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
کریملن کی ثالثی سے صدر ولادیمیر پیوٹن کو روس کے ساتھ سفارتی طاقت ملے گی جو یوکرین میں ماسکو کے حملے پر بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہوچکا ہے۔
دمشق ماسکو کا ایک مضبوط اتحادی ہے، جس نے 2015 میں خانہ جنگی میں مداخلت کرتے ہوئے حکومت کی جدوجہد کرنے والی افواج کی حمایت کے لیے فضائی حملے شروع کیے تھے۔