• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

’کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں؟‘ عمران خان کا وزیراعظم کی تنقید پر جوابی وار

شائع May 8, 2023
عمران خان نے شہباز شریف کے بیان پر جوابی ردعمل دیتے ہوئے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کردی — فائل فوٹو/عمران خان انسٹاگرام/اے ایف پی
عمران خان نے شہباز شریف کے بیان پر جوابی ردعمل دیتے ہوئے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کردی — فائل فوٹو/عمران خان انسٹاگرام/اے ایف پی

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پاک فوج کو ’بدنام‘ کرنے کا الزام لگانے پر سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے جواب دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ عمران نیازی کا معمولی سیاسی فائدے کی خاطر پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی کو بدنام کرنا اور دھمکیاں دینا انتہائی قابل مذمت ہے، جنرل فیصل نصیر اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کے افسران کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگانے کی اجازت دی جاسکتی ہے نہ اسے برداشت کیا جائے گا۔

گزشتہ سال وزیر آباد میں پی ٹی آئی سربراہ پر قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور ایک سینئر انٹیلی جنس اہلکار کو ان کے قتل کی کوشش کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کے بعد سے چیئرمین پی ٹی آئی سمیت کئی پارٹی رہنماؤں نے اس بات کو دہرایا ہے کہ وزیر آباد قاتلانہ حملہ عمران خان کو ختم کرنے کے لیے تین شوٹرز کے ذریعے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مبینہ طور پر عمران خان کے ان دعوؤں سے اتفاق کیا تھا کہ حملہ تین مقامات مختلف سے کیا گیا، دو بار تشکیل پانے والی اس جے آئی ٹی کی سربراہی سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کر رہے تھے۔

تاہم جنوری کے شروع میں حکومت نے حملے کی تحقیقات کے لیے ایک نئی ٹیم تشکیل دی جس کو پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا تھا۔

گزشتہ ہفتے کے روز اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی کے درمیان چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے مختلف شہروں میں نکالی گئی احتجاجی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر پر سخت تنقید کی تھی۔

عمران خان نے ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر کا نام لے کر الزام لگایا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس شخص کا نام یاد رکھنا جس نے مجھے پہلے بھی دو بار مارنے کی کوشش کی۔

آج سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں عمران خان نے شہباز شریف کے بیان پر جوابی رد عمل دیتے ہوئے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

سابق وزیراعظم کہا کہ کیا ایک ایسے شخص جو گزشتہ چند ماہ کے دوران 2 قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنا، کے طور پر میں شہباز شریف سے درج ذیل سوالات پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ کیا بطور پاکستانی شہری مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ان لوگوں کو نامزد کروں جو میرے خیال کے مطابق مجھ پر قاتلانہ حملے کے ذمہ دار تھے؟

پی ٹی آئی چیئرمین نے 18 مارچ کو اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والے تصادم کا بھی ذکر کیا جہاں وہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے عدالت میں پیش ہوئے تھے، دن بھر کشیدگی کے دوران پولیس اور پی ٹی آئی کے حامی آمنے سامنے ہونے سے وفاقی دارالحکومت میدان جنگ بن گیا تھا۔

اس کے بعد عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ان کو مارنے کے لیے قاتل جوڈیشل کمپلیکس کے باہر تعینات تھے اور انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

اپنے ٹوئٹ میں عمران خان نے کہا کہ آئی ایس آئی کے لوگوں کی وہاں موجودگی کا مقصد کیا تھا اور ان کا جوڈیشل کمپلیکس میں کام ہی کیا تھا؟ اگر شہباز شریف ان سوالات کے سچ پر مبنی جوابات دے سکیں تو ان سب سے ایک ہی طاقتور شخص اور اس کے ساتھیوں کا سراغ ملے گا جو سب قانون سے بالاتر ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ چنانچہ وقت آگیا ہے کہ ہم باضابطہ اعلان کریں کہ پاکستان میں محض جنگل ہی کا قانون رائج ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما ہے۔

جھوٹے الزامات، بہتان بازی قانونی حق ہے نہ آئینی، مریم اورنگزیب کا عمران خان کو جواب

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے بیان پر انہیں جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی حق ٹوئٹر، ریلی اور جلسوں میں نہیں ملتا، ثبوت لے کر تھانے اور عدالت جائیں، جھوٹے الزامات لگانا، بہتان بازی کرنا کسی کا قانونی حق ہے نہ آئینی۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ شہباز شریف سے سوال پوچھنے سے پہلے عمران خان عوام کو اپنی سازشوں کا جواب دیں۔

اپنے ٹوئٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ بہروپیے حق صرف آئین اور قانون کے تحت ہیں، ہر شہری اپنے حقوق کے تحفظ کا پورا قانونی حق رکھتا ہے جس کا تقاضا ہے کہ تھانے اور عدالت جائے اور ثبوت فراہم کرے، آئینی حق ٹوئٹر، ریلی اور جلسوں میں نہیں ملتا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 35 پنکچر، 10 ارب روپے، سائفر، امریکی سازش جیسے الزامات لگائے اور ثبوت فراہم نہیں کیے، اگر ثبوت ہیں تو عدالت کیوں نہیں جاتے؟ جھوٹے الزامات لگانا، بہتان بازی کرنا کسی کا قانونی حق ہے نہ آئینی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا اس وقت خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ان کی اپنی حکومت اور وزیر اعلیٰ تھا، کیا وہ سازش میں شامل تھے؟ عمران خان کے جھوٹوں پر انہوں نے ایف آئی آر کیوں نہیں کاٹی؟ مجرموں کو کیوں نہیں پکڑا؟

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ میڈیا، جج، سیاسی مخالفین کے قتل کی تمہاری سازش بے نقاب ہونے پر دوسروں پر اپنے قتل کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا کہ جو الزام دوسروں پر لگایا، مجرم خود نکلے، دوسروں کو چور ڈاکو کہا اور خود ڈاکو ثابت ہوئے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ مخالفین، صحافیوں، جج، وکلا کے قتل کی تمہاری سازش پکڑی گئی تو اب دوسروں پر اپنے قتل کا الزام لگا رہے ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاناما میں جھوٹ بولنے پر شہباز شریف کے مقدمے میں 6 سال سے تم عدالت سے فرار ہو۔ شہباز شریف سے سوال پوچھنے سے پہلے عوام کو اپنی سازشوں کا جواب دو۔ انہوں نے کہا کہ عدت میں شادی، بچی کے والد ہونے کا الزام لگنے کا انتظار باقی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم کے علاوہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی چیئرمین پی ٹی آئی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش نے ایک شخص کا حقیقی چہرہ بے نقاب کردیا ہے، بس بہت ہوگیا، غیر ملکی ایجنٹ کی گزشتہ روز کی تقریر سننے کے بعد کوئی محب وطن اس کی پیروی کرنے کا اب سوچ بھی نہیں سکتا، ایک شخص میرے آباؤ اجداد، میرے بچوں اور میرے ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہے جس کی ہم اجازت نہیں دیں گے۔

آصف زرداری نے کہا تھا کہ پاک آرمی کے بہادر اور مایہ ناز افسران پر الزامات دراصل اس ادارے پر حملہ ہے کہ جس کے ساتھ پورا پاکستان کھڑا ہے، ایک شخص جھوٹ اور دھوکے سے اپنے معصوم کارکنان کو بے وقوف بنارہا ہے، میں اس شخص کا زوال دیکھ رہا ہوں، یہ شخص اداروں کو بدنام کرنے کی ہر حد کو عبور کرچکا ہے جسے اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔

نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا تھا کہ ہم پنجاب میں کسی کو اپنے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تذلیل یا دھمکی دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024