موجودہ صورتحال میں بلاول اور جے شنکر کی ملاقات کا انداز نارمل تھا، امریکی اسکالر
اگرچہ بھارت اور پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ کے موقع پر دو طرفہ مذاکرات نہیں کیے، لیکن کثیر الجہتی اجلاس کے موقع پر ان کی لڑائی نے جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گووا میں دوطرفہ مذاکرات کی نہ تو درخواست کی اور نہ ہی بھارت نے پیشکش کی، حالانکہ مبصرین نے نشاندہی کہ یہ کثیرالجہتی مذاکرات ’مستقبل میں دونوں حریفوں کے درمیان بات چیت کی بنیاد بن سکتے ہیں‘، جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے نے ایک رپورٹ میں اس کی نشاندہی کی۔
بھارت نے پاکستانی وفد سے سختی سے محفوظ فاصلہ برقرار رکھا، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پاکستان کو یاد دلایا کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ ’ہم ایک ہی کشتی پر سوار ہیں‘۔
تاہم مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالیہ حملے میں مبینہ طور پر پاکستان کے ملوث ہونے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں ان کے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کو اسلام آباد کے ساتھ بات چیت کرنے میں ابھی بھی مسائل ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارت کے دعوے کا جواب دیتے ہوئے نئی دہلی پر زور دیا کہ وہ انضمام کو کالعدم قرار دے اور تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بعد میں اسلام آباد میں اپنے چینی ہم منصب چن گانگ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں سی پیک کے بارے میں کہا کہ اس منصوبے نے سماجی و اقتصادی ترقی کو تیز کیا ہے۔
اس سے قبل گووا میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بھارتی ہم منصب کو یاد دلایا کہ دہشت گردی کا مسئلہ ’سفارتی پوائنٹ اسکورنگ‘ کے لیے نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔
کشمیر، دہشت گردی اور سی پیک کے بارے میں ان پے در پے تبصروں نے بالکل وہی کیا جس سے بھارت بچنا چاہتا تھا یعنی کثیر الجہتی اجلاس میں پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل اٹھانا۔
بظاہر یہی وجہ ہے کہ ولسن سینٹر، واشنگٹن کے جنوبی ایشیائی امور کے ایک امریکی اسکالر مائیکل کوگلمین نے ایک ٹوئٹ میں نشاندہی کہ جب کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ کے دورہ بھارت پر کافی تنقید کی جا رہی ہے، ’ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے وہ پورا کر دیا جو اسلام آباد نے چاہا تھا‘۔
انہوں نے پاکستان کے اہداف کو ’ایس سی او کے مباحثوں میں شرکت اور بھارت کے سوا تنظیم کے تمام اراکین کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں‘ قرار دیا۔
ایک اور ٹوئٹ میں مائیکل کوگلمین نے وضاحت کی کہ انہیں کیوں یقین ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے گووا میں اپنا مقصد پورا کیا، اور کہا کہ ’یہ ایک کامیابی ہے جب توقعات اتنی ہی معمولی ہوں جتنی وہ تھیں، شکوک و شبہات سے وہ جے شنکر کے ساتھ ملاقات کی تلاش/ توقع کرنے گئے تھے‘۔
انہوں نے پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے تبصروں کو عمومی معاملہ قرار دیا، جو کہ (اس طرح کے تعلقات اور زیادہ تر مقامی سامعین کو نشانہ بناتے ہیں) کے لیے معمول ہے۔
انہوں نے لکھا کہ اس طرح کے تبصروں کا پاک بھارت تعلقات پر بہت کم اثر پڑے گا۔
تاہم مائیکل کوگل مین کے تبصروں پر بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل برہم ہوگئے۔
ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتوں میں شرکت اور ان کا انعقاد کس طرح ایک کامیابی ہے؟، ’ایسی ملاقاتوں میں یہ معمول ہے، اصل مسئلہ بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ ممکنہ ملاقات کا تھا جو نہیں ہوئی‘۔