• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظرِ ثانی کا بل سینیٹ سے منظور

بل ضمنی ایجنڈے کے ذریعے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں پیش کیا — تصویر: اسکرین گریب
بل ضمنی ایجنڈے کے ذریعے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں پیش کیا — تصویر: اسکرین گریب

سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظرِ ثانی کا بل پارلیمان کے ایوانِ بالا سے منظور ہوگیا۔

مذکورہ بل ضمنی ایجنڈے کے ذریعے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں پیش کیا۔

تاہم اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کیے جانے پر شدید احتجاج کیا گیا، بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 32 اور مخالفت میں 21 ووٹ آئے جس کے بعد بل کو بھی اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ضمنی ایجنڈا پیش کیے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج شروع کردیا گیا۔

احتجاج پر چیئرمین سینیٹ نے وزیر قانون سے دریافت کیا کہ یہ بل ایوان میں کیوں پیش کیا گیا۔

تاہم اپوزیشن نے اعظم نذیر تارڑ کو بولنے کا موقع نہ دیا جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ اپنی دکان بند کریں گے تو میں بات کروں گا ورنہ بل ہر صورت میں منظور ہوگا، جس پر چیئرمین سینیٹ نے انہیں کہا کہ دھمکی نہ دیں دلیل دیں۔

بعد ازاں ایوان میں بات کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ آئین کی دفعہ 188 میں نظرِثانی کے اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے ایوان میں آئین پاکستان کی دفعہ 188 کو پڑھ کر سنایا جس کے مطابق ’مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے کسی ایکٹ کے اور عدالت عظمیٰ کے وضع کردہ کسی قواعد کے احکام کے تحت عدالت عظمیٰ کو اپنے صادر کردہ کسی فیصلے یا دیے ہوئے حکم پر نظرِ ثانی کا اختیار ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے قومی اسمبلی میں آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر کے اس کی رو آئین کے آرٹیکل 25، 10 اے اور 4 کے مطابق عوام کے بنیادی حقوق یقینی بنائے ہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ یہ قانون سازی پروسیجرل نوعیت کی ہے اور نظرِ ثانی میں جو لوگوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے کہ آرٹیکل 184 (3) کے حوالے سے بہت کم گنجائش دی جاتی ہے جسے بہتر کرنے کے لیے یہ پروسیجرل قانون دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا تو حکومت نے اس کی مخالفت نہیں کی اور آج سینیٹ میں بھی اس کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔

بل کامقصد نااہلی کے کیسز معاف کرانا ہے، شہزاد وسیم

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ حکومتی اراکین جو صبح شام پارلیمان کی بالادستی کی بات کرتے نہیں تھکتے وہ اس ایوان میں خود توہین پارلیمان کر رہے ہیں اور اسے ایک دکان کے ساتھ تشبیہہ دے رہے ہیں، یہ بتائیں کہ دکاندار کون ہے۔

ان کا کہنا تھا وزیر قانون نے پارلیمان کو دھمکی دی کہ ہم یہ بل منظور کروا کر رہیں گے، جب دلیل نہیں ہوتی تو دھمکیاں رہ جاتی ہیں۔

ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ بتایا جائے کہ اس بل کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس بل کے پسِ پردہ مقصد کیا ہے، اس کے پیچھے نظر ثانی کا معاملہ نہیں بلکہ صرف ایک مقصد ہے کہ نااہلی کے مقدمات کو معاف کرایا جائے، پہلے انہوں نے کرپشن کے کیسز معاف کروائے اب یہ کیسز معاف کروائیں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے بل کی کاپی پھاڑ کر مطالبہ کیا گیا کہ بل کو متعلقہ کمیٹی میں بھیجا جائے۔

وزیر خارجہ اب وزیر سیر و تفریح ہیں، اعجاز چوہدری

ایوان میں بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے آٹا اسکیم میں کرپشن سے متعلق جو الزام لگایا ہے اس کی تحقیقات کی جائیں، اس کے علاوہ سیلاب میں جو امداد آئی تھی اس کی بھی تحقیقات کی جائے۔

اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ اس ملک میں کبھی وزیر خارجہ ہوتے تھے اب وزیر سیر و تفریح ہے، کوئی ملک نہیں جہاں وہ سیر کے لیے نہیں گئے اور اب گووا کے ساحل پر پائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے اعتراض کیا کہ وزیر خارجہ، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں آن لائن شریک ہو سکتے تھے لیکن یہ نریندر مودی کی محبت میں گرفتار ہیں، یہ دورہ مودی سے پینگیں بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ الیکشن کرانا چاہتی ہے یہ بھارت جانا چاہتے ہیں، تو وہیں سکونت اختیار کرلیں، وزیر خارجہ کو توفیق نہیں کہ افغانستان جائیں اور وہاں سے جو مسائل ہیں ان پر بات کریں۔

پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ انہوں نے کشمیر کے خون سے غداری کی ہے، یہ آج سپریم کورٹ پر حملہ آور ہیں، یہ پارلیمنٹ کو بدنام کرتے ہیں، پارلیمان اور سپریم کورٹ کی توہین کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قاسم سوری نے ایک رولنگ دی تھی وہ کیسے ختم ہو گئی تھی، کیا اس وقت پارلیمنٹ سپریم نہیں تھی، چیف جسٹس اس فیصلے کو واپس لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے،حکومت، پارلیمنٹ کے پیچھے چھپنا بند کرے، یہ ملک کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے، یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کونسی حکومتیں ہیں، وہاں بجٹ کون دے گا؟ یہ صرف الیکشن سے فرار کا بہانہ ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو گولیاں لگیں، وہ تمام تکالیف کے باجود عدلیہ میں پیش ہوئے، ایک اور سابق وزیراعظم باہر بیٹھے ہیں، آپ بھی عدلیہ کا احترام کریں، عدلیہ کے الیکشن کے حوالے سے فیصلے آپ کو ماننا پڑیں گے۔

دوران تقریر سینیٹر اعجاز چوہدری نے بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں تضحیک آمیز ریمارکس دیے جسے چیئرمین سینیٹ نے کارروائی سے حذف کرادیا اور اس پر سینیٹر مولا بخش چانڈیو کی جانب سے نامناسب جواب بھی آیا۔

بلاول کی ایس سی او میں شرکت کی ساری دنیا تعریف کر رہی ہے، سلیم مانڈوی والا

وزیر خارجہ کے دورہ بھارت پر اپوزیشن کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ وزیر خارجہ افغانستان گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرتا ہے، یہ کامیابی ہے کہ بلاول بھارت میں ایس سی او میں شریک ہیں، پوری دنیا اس کی تعریف کر رہی ہے۔

اسی حوالے سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزیر خارجہ، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے گئے ہیں۔

اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سینیٹر نے مزید کہا کہ ان کے سابق وزیر اسی امریکا میں ملاقاتیں کرتے ہیں جن پر یہ رجیم چینج کا الزام لگاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کے سابق وزرا امریکی کے ساتھ کھانے کھاتے ہیں اور ان کی تصاویر شئیر کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ فیصلوں اور احکامات نظر ثانی ترمیمی بل

سپریم کورٹ فیصلوں اور احکامات نظر ثانی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ پہنچا تھا جس کے مطابق سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست فیصلہ سنانے والے بینچ سے بڑا بینچ سنے گا۔

بل میں کہا گیا کہ نظر ثانی دائر کرنے والے درخواست گزار کو اپنی مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

بل کے مطابق ایسے متاثرہ شخص کو نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا جس کے خلاف اس قانون سے قبل آرٹیکل 184 تھری کے تحت فیصلہ دیا گیا ہو، نظر ثانی درخواست اس قانون کے آغاز کے 60 دن کے اندر دائر کی جائے گی۔

بل میں یہ بھی کہا گیا کہ نظر ثانی کی درخواست فیصلے کے 60 روز کے اندر دائر کی جائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024