وکلا تنظیموں کا تنازع سپریم کورٹ کی دہلیز تک پہنچ گیا
وکلا کی اعلیٰ تنظیموں کا تنازع سپریم کورٹ کی دہلیز تک پہنچ گیا جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی جانب سے ’مس کنڈکٹ‘ کے الزام پر اپنے سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کی برطرفی اور اظہارِ وجوہ کے نوٹس کے اجرا کو چیلنج کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رات گئے ایک اقدام میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی ’سنگین مس کنڈکٹ‘ اور عدالت عظمیٰ کی وکلا تنظیم پر مبینہ قبضے کی کوشش پر پاکستان بار کونسل کے چیئرمین حسن رضا پاشا سمیت اراکین کی رکنیت معطل کردی۔
سینئر وکیل حامد خان کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی کہ پی بی سی اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے مقتدیر اختر شبیر اور ملک شکیل الرحمٰن کو ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کی مبینہ خلاف ورزی پر جاری کیے گئے نوٹسز کو کالعدم قرار دیا جائے۔
تنازع 24 فروری کو پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بنا جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کے بجائے محمد احسن بھون ایسوسی ایشن کی نمائندگی کریں گے۔
اس کے بعد پاکستان بار کونسل نے 4 اپریل کو ایگزیکٹو باڈی کے فیصلے کی عدم تعمیل پر دونوں عہدیداروں کو ڈی سیٹ کر دیا تھا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ نوٹس اور ڈی سیٹنگ واضح غیر قانونی، من مانی، بدتمیزی، بغیر دائرہ اختیار کے، سیاسی طور پر محرک اور آرٹیکل 9، 10 اے، 17، 18، 19، 19اے اور 25 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں لیگل پریکٹیشنرز اور بار کونسل رولز 1976 کے رول 125 اور 175-بی کو بھی چیلنج کیا اور عدالت سے استدعا کی گئی کہ انہیں غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔
رول 125 پاکستان بار کونسل کو نظم و ضبط سے متعلق وجوہات کی بنا پر وکلا کے خلاف از خود کارروائی شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے، جبکہ رول 175-بی کونسل کی ہدایات کی عدم تعمیل یا خلاف ورزی پر سزا تجویز کرتا ہے۔
عدالت سے پی بی سی کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی گئی ہے تاکہ اسے ایس سی بی اے کے معاملات میں مداخلت کرنے اور شوکاز نوٹس کی بنیاد پر ایسوسی ایشن کے خلاف ’منفی یا جبری کارروائی‘ سے روکا جائے’۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ پی بی سی میں اکثریت رکھنے والا گروپ مبینہ ڈکٹیشن کے تحت قانون کی حکمرانی، بار کی آزادی اور عدلیہ کے خلاف سرگرم عمل ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ پی بی سی کے رکن تھے اور مبینہ طور پر اپنی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کونسل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے تھے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا کہ نہ تو ایس سی بی اے اور نہ ہی اس کے اراکین کسی بھی طرح سے پی بی سی کو جوابدہ ہیں کیونکہ یہ سپریم کورٹ کے تمام وکلا کی ایسوسی ایشن ہے جو ایک آزاد اور جمہوری فورم کے طور پر کام کرتی ہے اور عدالت عظمیٰ کے تمام وکلا کی مساوی اور منصفانہ نمائندگی کو یقینی بناتی ہے۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ نوٹس ’صرف ایس سی بی اے کی آواز کو روکنے‘ اور ’پاکستان بار کونسل میں پھیلی منافقت اور بدعنوانی کو برہنہ کرنے‘ کی کوشش کرنے والوں کو دھمکانے اور ہراساں کرنے کی کوشش تھا۔
رکنیتیں معطل
دریں اثنا بظاہر انتقامی اقدام اٹھاتے ہوئے ایس سی بی اے کے سیکریٹری مقتدیر اختر شبیر نے پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے 7 ارکان کی رکنیت معطل کردی، جن میں چیئرمین حسن رضا پاشا، ارکان سید امجد شاہ، ریاضت علی سحر، محمد طارق آفریدی، محمد مسعود چشتی، محمد احسن بھون اور سید قلب حسن شامل ہیں۔
اس معاملے کو حتمی فیصلے کے لیے جنرل میٹنگ میں بھی بھیج دیا گیا ہے۔
ایک اعلامیہ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے الزام لگایا کہ 25ویں ایگزیکٹو کمیٹی کی موجودہ مدت کے آغاز سے ہی پاکستان بار کونسل کو کنٹرول کرنے والے اکثریتی گروپ نے براہ راست اور ایگزیکٹو کمیٹی کے اندر اپنے گروپ ممبران کے ذریعے ایسوسی ایشن کے کام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔
ایس سی بی اے نے کہا کہ ممبران نے ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ایک ’توہین آمیز معاملہ اور سپریم کورٹ کے سامنے زیر سماعت تھا، جو عدالت عظمیٰ کی توہین کے مترادف ہے اور انصاف کے مفاد کو نقصان پہنچاتا ہے‘۔
ایسوسی ایشن کے کہا کہ یہ اراکین، سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کے خلاف غیر قانونی کارروائی کرکے ایس سی بی اے پر غیر قانونی طور پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ سنگین مس کنڈکٹ کے مترادف ہے’۔