سینیٹ کمیٹی کا ’سرکاری سرپرستی میں اسمگلنگ‘ پر اظہارِ برہمی
ملک کی مغربی سرحدوں پر کرنسی اور اہم اجناس بالخصوص یوریا، گندم، چینی اور تیل کی مصنوعات کی لامحدود مقدار میں مبینہ طور پر سرکاری سرپرستی میں اسمگلنگ کا معاملہ ایک پارلیمانی پینل کی کارروائی پر حاوی ہوگیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے تسلیم کیا تھا کہ یہ خطرہ اتنی سنگین تشویش کا باعث بن گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کوشاں تھے۔
یہ معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کے اجلاس میں زیر بحث آیا جس میں تاجروں کے خلاف ٹیکس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انسداد منی لانڈرنگ قانون کے مبینہ غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس میں سینیٹرز فاروق ایچ نائیک، انوار الحق کاکڑ اور کامل علی آغا نے غیر ملکی کرنسی اور دیگر اشیا کی وسیع پیمانے پر اسمگلنگ کی رپورٹس پر بات کی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ سرحدوں پر تعینات مختلف ایجنسیاں اور فورسز براہ راست اسمگلنگ کے ذمہ دار ہیں ورنہ اتنی بڑی مقدار میں نقل و حرکت نہیں ہو سکتی۔
سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ چمن اور تفتان بارڈر پر ڈیڑھ سال سے نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 3 کروڑ لیٹر سے زائد ایرانی ڈیزل اور پیٹرول پاکستان اسمگل کیا جا رہا ہے جبکہ اس معاملے پر مکمل مجرمانہ نوعیت کی خاموشی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ڈپٹی کمشنرز 40 ہزار روپے فی کنسائنمنٹ کے حساب سے ٹوکن جاری کر رہے ہیں اور ہر ماہ 10 سے 15 ارب روپے کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں بے روزگار نوجوانوں کے نام پر بڑے بڑے اور چھپے ہوئے چہرے اس کاروبار کو چلا رہے ہیں لیکن یہ کھلا راز ہے کہ بے روزگار نوجوانوں اور غریبوں کے بجائے طاقتور اور بااثر لوگ اس کھیل میں ملوث ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ ڈپٹی کمشنرز کا مینڈیٹ ہے؟ ڈی سی کو ایسے اختیارات کس نے دیے ہیں؟
کلیئرنس کیلئے مقررہ نرخ
سینیٹر کامل آغا نے کہا کہ اسمگل شدہ سامان کے ہر ٹرک کا مقررہ ریٹ 5 سے 6 لاکھ روپے ہے جب کہ ہر چوکی پر کلیئرنس کے لیے ایک سے 3 لاکھ روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام بڑے شہروں میں دو سے تین معروف مارکیٹیں کام کر رہی ہیں جہاں اسمگل شدہ سامان آزادانہ دستیاب ہے۔
سینیٹر فاروق نائیک اور کامل آغا نے ایف بی آر اور کسٹم انٹیلی جنس سے پوچھا کہ وہ اس لعنت کو روکنے میں کیوں ناکام ہیں اور افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی معیشت نازک دور سے گزر رہی ہے لیکن ڈالر بلا روک ٹوک اسمگل کیا جارہا ہے اور جب اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پاکستانی عوام کو متاثر کر رہی ہیں،کچھ لوگ غیر قانونی طور پر اشیا برآمد کر کے دولت کما رہے ہیں۔
وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کمیٹی کو بتایا کہ اسمگلنگ ایک ایسا چیلنج بن گیا ہے کہ وزیر اعظم نے اس صورتحال کا ذاتی طور پر نوٹس لیا اور اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے ایک انٹر ایجنسی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
کسٹم انٹیلی جنس کے ایک عہدیدار نے کمیٹی کو بتایا کہ خضدار سے تین روز کے اندر 43 ہزار تھیلے یوریا اور 42 ہزار چینی کے تھیلے ضبط کیے گئے اور چوکیوں کا انتظام مختلف ایجنسیوں کی مشترکہ ٹیموں کے ذریعے کرنے کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔