بُک ریویو: ’میرا زمانہ میری کہانی‘
یہ جولائی 2015ء کی بات ہے۔ لندن میں واقع برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے ہیڈکوارٹرز میں ملکہ برطانیہ کی موت کی خبر دینے کی معمول کی مشق ہورہی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عملے کو ایک ایسے دن اس غیرمعمولی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جارہی تھی جس دن ملکہ اپنے طبی معائنے کے لیے اسپتال گئی تھیں۔
اعلیٰ حکام تو مشق کے حوالے سے مطلع تھے لیکن بی بی سی اردو سروس کے ایک رپورٹر کو اس کا علم نہیں تھا۔ اس نے جب عمارت کے اندر لگے مانیٹر پر نظر ڈالی تو وہاں ملکہِ برطانیہ کی موت کی خبر درج تھی، رپورٹر بوکھلا گیا اور اس نے یہ خبر بریک کردی جس کے بعد ایک طوفان برپا ہوگیا۔
یہ کتاب ’میرا زمانہ میری کہانی‘ میں درج کئی قصوں میں سے ایک قصہ ہے۔ یہ کتاب پاکستان ٹیلی ویژن کے عروج کے وقت اس کا حصہ رہنے والے چند مشہور چہروں میں سے ایک معروف پرائم ٹائم نیوزکاسٹر ماہ پارہ صفدر کی سوانح عمری ہے۔
اپنے قارئین کو پرانے وقتوں میں واپس لے جاتے ہوئے ماہ پارہ صفدر نے لکھا کہ انہوں نے ماہ پارہ زیدی کی حیثیت سے 1974ء میں ریڈیو پاکستان سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور پھر انہوں نے اپنے اگلے 15 برس، کبھی ریڈیو اور کبھی ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتے گزارے۔ اسی دوران وہ مشہور شاعر صفدر ہمدانی سے رشتہِ ازدواج میں وابستہ ہوگئیں اور 1990ء تک وہ بی بی سی اردو سروس میں کام کرنے کے لیے لندن منتقل ہوچکی تھیں۔ اس وقت ان کے خاوند کی جاپان میں ملازمت ہوگئی تو انہوں نے اپنے بچوں کے ہمراہ چند سال برطانیہ میں اکیلے گزارے۔
کتاب میرا زمانہ میری کہانی 3 حصوں پر مشتمل ہے جس میں پہلے حصے میں ماہ پارہ صفدر نے سرگودھا میں اپنی ابتدائی زندگی اور لاہور کا ذکر کیا ہے جہاں سے انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ پھر انہوں نے اپنے والدین کی ان کے شوق کی بھرپور حمایت کرنے، ان کے ٹیلی ویژن آڈیشن، جنرل ضیاالحق کے مارشل لا اور اس دور کے سماجی واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ تیسرے حصے میں بیرونِ ملک ان کی زندگی، بی بی سی میں ان کے کیریئر، سماجی و ثقافتی مشکلات جن کا انہوں نے برطانیہ میں سامنا کیا اور چند یادگار انٹرویوز اور پروجیکٹس کا تذکرہ کیا ہے۔ آخری چند صفحات پر موجود ان کے منتخب اشعار سے ان کی شاعرانہ صفت کی جھلک بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔
وہ 6 بہنیں ہیں اور وہ اپنے اہلِ خانہ کو ملنے والے طعنوں کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ان کے والد کو ’بیٹیوں والے زیدی صاحب‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا اور بیٹیوں کی پیدائش پر ان سے افسوس کیا جاتا تھا۔ لیکن ان واقعات نے انہیں کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط بنایا اور اس بات کا سہرا وہ اپنی والدہ کو دیتی ہیں جنہوں نےاس وقت اپنی 6 بیٹیوں کی تعلیم کو یقینی بنایا جب لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کی جارہی تھی۔
اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے 1958ء کے مارشل لا، 1965ء کی جنگ میں اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کی مشہورِ زمانہ ایئر اسٹرائیک میں بھارتی جہازوں کی تباہی اور ذوالفقار علی بھٹو کا عروج جن کی 1970ء کے انتخابات سے قبل سرگودھا آمد ہوئی تھی، ان تمام واقعات کو یاد کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ 1971ء کی جنگ کے اختتام تک وہ اس وقت جاری مذہبی اور نسلی تنازعات کے نتیجے میں معاشرے میں تقسیم کو محسوس کرسکتی تھیں۔
ماہ پارہ صفدر کی تحریر کا دوٹوک انداز اور معروف شعرا کے اشعار ا استعمال، حتیٰ کہ مشہور گانوں کے حوالہ جات بھی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں۔ اہم واقعات کے پیچھے ’حقیقی‘ کہانیوں کو یاد کرنے میں ان کی یادداشت اور تفصیلات سے یہ گمان ہوتا ہے جیسے ہم کوئی خبرنامہ دیکھ رہے ہوں جس میں واقعات کو غیرجانب دارانہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی صاف اردو کے لیے جانی جاتی ہیں اور زبان پر مہارت ان کی تحریر پر بھی نظر آتی ہے۔
انہوں نے ہمیں تاریخ کے بہت سے واقعات کی دوبارہ یاد دلائی ہے جن میں سر ڈھانپنے سے انکار پر مہتاب اکبر راشدی کو پی ٹی وی سے برطرف کرنے کا معاملہ، ضیاالحق کے آمرانہ دور میں سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو سرِعام کوڑے مارنا اور 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی کوریج کو روکنے کی ’محتاط‘ کوششیں شامل ہیں۔ تاہم اس طرح ماضی کے لوگوں کا جذبہ مزاحمت پڑھ کر خوشی ضرور ہوتی ہے۔ تاہم جنرل ضیاالحق کا عروج و زوال، اوجڑی کیمپ دھماکے اور پھر وزیراعظم محمد خان جونیجو کی بےبسی کو یاد کرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
جنرل ضیاالحق کے اقتدار سنبھالنے سے قبل بھی پی ٹی وی سربراہِ مملکت (یاحکومت) کے حکم کی تعمیل کرنے کا عادی تھا۔ اس کی مثال دیتے ہوئے ماہ پارہ صفدر لکھتی ہیں کہ جس دن 1973ء کا آئین پاس ہوا تھا، اس دن اپنی مصروفیات کی وجہ سے صدرِ مملکت ذوالفقار علی بھٹو پی ٹی وی کا خبرنامہ نہیں دیکھ پائے تھے۔ پی ٹی وی نے خصوصاً ان کے لیے مکمل ریکارڈنگ دوبارہ ٹی وی پر چلائی حالانکہ انہیں اس دن کے خبرنامے کی ٹیپ بھی بھیجی جاسکتی تھی۔
بعدازاں 5 جولائی 1977ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تب ریڈیو پر صبح کے خبرنامے میں حکومت اور پی این اے کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کی خبر دی گئی لیکن پھر دن کا اختتام ملک میں مارشل لا کے نفاذ کی خبر کے ساتھ ہوا۔
ماہ پارہ صفدر نے جنرل ضیاالحق کے ’تخت سنبھالنے‘ کے بعد خواتین کے ملبوسات کے حوالے سے سخت پابندیوں کا بھی بھرپور ذکر کیا ہے۔ خاتون نیوز کاسٹرز سر ڈھانپنے کی پابند تھیں اور کچھ وقت کے لیے ان کے میک اپ کرنے پر پابندی تھی جس کی وجہ سے ’خبرنامہ‘ تبدیل ہوکر ’ضیانامہ‘ بن گیا تھا۔ شدید تنقید کے بعد میک اپ کرنے پر پابندی تو اٹھا لی گئی لیکن ڈوپٹے سے سر ڈھانپنے کی پابندی برقرار رہی اور ماہ پارہ صفدر جس انداز میں اپنے بال اونچے کرکے ڈوپٹہ سر پر لیا کرتی تھیں، اس سے ان پر اس پابندی کا مذاق اڑانے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔
انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے، جنرل ضیاالحق کے ریفرنڈم، 1985ء کے عام انتخابات اور ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کے عروج کا پس منظر بھی کیا۔ وہ اس دور کی سنسرشپ کو مضحکہ خیز قرار دیتی ہیں جب ’بھٹو‘ سمیت کئی ناموں کو آن ایئر لینے پر پابندی عائد تھی تو ایسے حالات میں بی بی سی ریڈیو پاکستان میں خبریں دینے کا مستند ذریعہ بن گیا تھا۔ جب مارشل لا کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تب پارلیمان پُرجوش تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا تھا اور اس حوالے سے ماہ پارہ صفدر کی تفصیلی وضاحت سے قارئین کو محسوس ہوگا کہ جیسے وہ واقعی ان تالیوں کو سن سکتے ہیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر کا اعلان ہونا تھا تب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ یہ خبر پڑھ سکیں گی۔ چونکہ خبریں پڑھنا ان کا کام تھا اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری پیشہ ورانہ انداز میں سرانجام دی۔ تاہم وہ اس بات پر پریشان تھیں کہ 9 سال بعد جب جنرل ضیاالحق کا طیارہ گر کر تباہ ہوا تب پی ٹی وی کے اسٹوڈیوز میں موجود ہونے کے باوجود انہیں یہ خبر پڑھنے سے روک دیا گیا۔
1989ء کے اختتام پر ماہ پارہ صفدر بی بی سی کی اردو سروس کے لیے منتخب ہوگئی تھیں لیکن ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل تھا اور اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے کلیئرنس حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنی راہ میں حائل بیوروکریٹک رکاوٹوں کو ہٹانا تھا۔
کتاب کے ایک باب میں انہوں نے پی ٹی وی میں اپنے ساتھیوں کی خوب تعریف کی ہے۔ اس خراجِ تحسین سے ماضی کے ’اچھے دونوں‘ کی یاد بھی تازہ ہوتی ہے جب کمپیوٹر حتیٰ کہ ٹیلی پرامپٹرز کا استعمال بھی کسی خواب کی مانند تھا۔ ایسے دور میں خبریں کیسے جمع کی جاتی تھیں، خبرنامے کیسے ایڈٹ ہوتے تھے اور اسکرپٹ اور ویژول کے لیے موجودہ دور سے ہٹ کر کس مہارت اور تکنیک کی ضرورت ہوتی تھی، ان سب چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
برطانیہ میں رہائش اختیار کرنے کے بعد ماہ پارہ صفدر نظروں سے تو اوجھل ہوگئی تھیں لیکن بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس کے ذریعے ان کی آواز لوگوں کے گھروں تک پہنچ رہی تھی۔ اگلے 25 سال تک انہوں نے خواتین کے لیے خصوصی پروگرامز کیے اور متعدد مشہور شخصیات اور سیاستدانوں کے انٹرویوز کیے۔ ان کی کتاب میں موجود یادگار تصاویر میں معروف شخصیات جیسے گلوکار مہدی حسن اور فریدہ خانم، بولی وڈ اداکار دلیپ کمار اور سیاست دان سردار اکبر بگٹی کے ساتھ ان کی تصاویر شامل ہیں، جوکہ ان کے بہترین کام کی ترجمانی کرتی ہیں۔
وہ بکنگھم پیلس میں منعقد ہونے والی ایک گارڈن پارٹی کے بارے میں لکھتی ہیں کہ وہاں ان کی ملاقات ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم سے ہوئی۔ وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک خود ساختہ جلاوطن رہنما کے ولیمے کی تقریب کے حوالے سے بھی لکھتی ہیں جہاں شاندار انتظامات دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی کیونکہ اس رہنما کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ وہ متوسط طبقے کی زندگیوں میں انقلاب لےکر آئیں گے۔
اس دوران ماہ پارہ صفدر نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور یونیورسٹی آف لندن سے وومنز اسٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اپنے خاوند کی بھی تعریف کرتی ہیں جنہوں نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا اور کتاب میں ان کی شادی شدہ زندگی کی جھلکیاں بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جس کو 40 سال ہوچکے ہیں اور ان دونوں کا رشتہ اب بھی مضبوط ہے۔
کتاب ’میرا زمانہ میری کہانی‘ ان لوگوں کو ضرور پڑھنی چاہیے جو 1970ء اور 1980ء کی دہائی کے واقعات سے خود کو جوڑ سکتے ہیں۔ یہ کتاب نوجوان نسل کی رہنمائی بھی کرسکتی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی جو میڈیا میں اپنا نام کمانا چاہتے ہیں اور یہ ان نوجوان لڑکیوں کو بھی متاثر کرنے کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے جو معاشرتی روایات اور پدرشاہی نظام کے طوق سے آزاد ہونا چاہتی ہیں۔
کتاب کا نام: میرا زمانہ میری کہانی
مصنفہ: ماہ پارہ صفدر
ناشر: بُک کارنر، جہلم
صفحات: 464
یہ مضمون 22 اپریل 2023ء کو ڈان بُکس اینڈ اوتھرز میں شائع ہوا۔