افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا رواں ہفتے دورہ پاکستان کا اعلان
افغان وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ امیر خان متقی رواں ہفتے کے آخر تک پاکستان کا دورہ کریں گے۔
افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں حتمی تاریخ کا نہیں بتایا گیا، تاہم افغانستان میں ہفتے کا اختتام جمعہ کو ہوتا ہے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اسلامی امارات افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا رواں ہفتے کے آخر میں دورہ کرنا ہے، وہ جامع سیاسی اور کاروباری وفود کی سربراہی کریں گے۔
افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیا نے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بیان جاری کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ افغان حکومت سیاست، پاک-افغان معاشی تعلقات، علاقائی استحکام اور ٹرانزٹ کے حوالے سے جامع دو طرفہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ افغان وزیر خارجہ پاکستان اور چین کے ہم منصوبوں کے ساتھ ملاقات میں افغانستان کی نمائندگی کریں گے، یہ سہ ملکی مذاکرات کا چھٹا اجلاس ہوگا۔
بیان میں کہا گیا کہ دورے کے دوران افغانی اور چینی وزرائے خارجہ کے درمیان دو طرفہ مذاکرات بھی ہوں گے۔
پاکستان نے اس حوالے سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
کن معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا؟
اگرچہ افغان وزارت خارجہ نے متعدد مسائل کا تذکرہ کیا ہے جن پر تبادلہ خیال کیا جائے گا تاہم پاکستان کی جانب سے کچھ دیگر مسائل اٹھائے جائیں گے۔
پاکستان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے کابل کے کردار پر دباؤ ڈالا جائے گا، پاکستانی حکام کا اصرار ہے کہ وہ افغان کی سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں، افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان کے دعووں کی تردید کرتی ہے۔
خیال رہے کہ فروری 2023 میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کابل کا دورہ کیا تھا، جس میں افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں اور اپنی سرزمین پر پناہ گاہوں کی موجودگی کے بارے میں حکومت پاکستان کے خدشات پر اسلام آباد کی جانب سے سخت وارننگ دینے کے بعد اس کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفد نے طالبان حکام کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے افغانستان میں موجود عناصر کو لگام ڈالنی چاہیے۔
افغان وزیرخارجہ کو پاکستانی و چینی ہم منصبوں سے ملاقات کیلئے پاکستان جانے کی اجازت
قبل ازیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے لیے آئندہ ہفتے افغانستان سے پاکستان آنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امیر خان متقی پر سلامتی کونسل کی جانب سے طویل عرصے سے سفری پابندی عائد تھی جبکہ ان کے اثاثے بھی منجمد ہیں۔
سلامتی کونسل کی 15 رکنی کمیٹی کو لکھے گئے خط میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مشن نے درخواست کی تھی کہ امیر خان متقی کو 6 سے 9 مئی کے درمیان پاکستان اورچین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے لیے استثنیٰ دیا جائے۔
اس درخواست میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ وزرا کے درمیان اس ملاقات میں کن امور پر بات چیت ہوگی، علاوہ ازیں اس میں بتایا گیا تھا کہ امیر خان متقی کے دورے کے تمام اخراجات پاکستان برداشت کرے گا۔
ماضی میں چین اور پاکستان کے حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ طالبان کے زیر قیادت افغانستان کو اربوں ڈالرکے پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) انفرااسٹرکچر منصوبے میں خوش آمدید کہیں گے، واضح رہے کہ سی پیک، چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کا حصہ ہے۔
افغانستان، جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان اہم جغرافیائی تجارت اور ٹرانزٹ روٹ ہے جس کے پاس اربوں ڈالرکے معدنی وسائل موجود ہیں، 20 سال کی طویل جنگ کے بعد اگست 2021 میں امریکا کی زیر قیادت نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان برسر اقتدار آچکے ہیں۔
سلامتی کونسل کی کمیٹی نے گزشتہ ماہ فوری امن، سلامتی اوراستحکام کے امور پر تبادلۂ خیال کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھی امیر خان متقی کو ازبکستان جانے کی اجازت دی تھی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ روز دوحہ میں افغانستان کے بارے میں مختلف ممالک کے خصوصی سفرا کے ساتھ 2 روزہ اجلاس کا آغاز کیا جس کا مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے عالمی برادری کے درمیان باہمی اتفاق پیدا کرنا ہے۔
انتونیو گوتریس کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ بند کمرہ اجلاس میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، مخلوط حکمرانی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے اہم امور پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
اجلاس میں چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، ایران، جاپان، قازقستان، کرغزستان، ناروے، پاکستان، قطر، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکیہ، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکا، ازبکستان، یورپی یونین اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے شرکت کی ہے جبکہ طالبان انتظامیہ کو اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔