قطر: اقوام متحدہ کا طالبان کے بغیر افغانستان کے بحران پر اجلاس
اقوام متحدہ کی زیر قیادت آج قطر میں شروع ہونے والے مذاکرات میں طالبان شرکت نہیں کریں گے جس میں بات کی جائے گی کہ افغانستان کے حکمرانوں سے کیسے نمٹنا ہے اور ان پر کام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی ختم کرنے کے لیے کیسے دباؤ ڈالا جائے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ساتھ دو روزہ مذاکرات میں امریکا، چین اور روس کے ساتھ ساتھ بڑے یورپی امدادی عطیہ دہندگان اور پاکستان جیسے اہم پڑوسی ممالک سمیت تقریباً 25 ممالک اور گروپوں کے نمائندے شریک ہوں گے۔
اس اجلاس میں طالبان حکومت کو مدعو نہیں کیا گیا اور اس اجلاس سے قبل کابل انتظامیہ کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے تھے۔
افغان خواتین کے ایک چھوٹے سے گروپ نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں احتجاج کرتے ہوئے طالبان حکمرانوں کو تسلیم کرنے کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کی تھی۔
اتوار کو دوحہ اجلاس کے لیے جاری ہونے والے ایک کھلے خط میں افغان خواتین کے گروپ نے کہا کہ وہ اس بات پر شدید غصے میں ہیں کہ کوئی بھی ملک طالبان حکومت سے رسمی تعلقات پر غور کرے گا جس کا یہ ماننا ہے کہ خواتین کے حقوق سے نمٹنا اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
تاہم اقوام متحدہ اور امریکا کا مسلسل اصرار ہے کہ طالبان کو تسلیم کرنا ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل امینہ محمد کے بیان کے بعد انسانی حقوق گروپوں کے خدشات میں اضافہ ہو گیا تھا جنہوں نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ دوحہ اجلاس میں ایسے اقدامات بھی شامل ہو سکتے ہیں جو طالبان حکومت کو ’اصولی طور پر تسلیم‘ کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
البتہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ان تبصروں کی غلط تشریح کی گئی، کسی بھی ملک نے طالبان انتظامیہ کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم نہیں کیے ہیں اور اقوام متحدہ کی رکنیت کا فیصلہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہی کر سکتی ہے۔
دوحہ آمد سے قبل انتونیو گوتریس کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس ملاقات کا مقصد عالمی برادری سے اس حوالے سے بات چیت کرنا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، جامع طرز حکمرانی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے سلسلے میں طالبان حکومت سے کس طرح سے گفتگو کی جائے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ طالبان کی شناخت کے حوالے سے کوئی بھی معاملہ زیر غور نہیں ہے۔
2021 میں غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کی معزولی کے بعد سے طالبان حکام نے ایسے شرعی قوانین کا نفاذ کیا ہے جسے اقوام متحدہ نے ’صنف کی بنیاد پر نسل پرستی‘ کا نام دیا ہے۔
افغانستان میں خواتین کو تعلیم کے حصول اور یونیورسٹی جانے سے روک دیا گیا ہے اور زیادہ تر سرکاری ملازمتوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور این جی اوز میں کام کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام طاقتیں آج افغان خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں کی مذمت کرنے کے لیے متحد ہوئی ہیں اور تمام ممالک سے پالیسیوں کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی اپیل کی۔
امینہ محمد نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ طالبان حکام چاہتے ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے، اقوام متحدہ کے باضابطہ تعلقات بحال ہونے کے بعد طالبان حکومت کو بیرون ملک ضبط کیے گئے اربوں ڈالر دوبارہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم دوحہ مذاکرات میں شامل کئی ممالک کے سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ یہ تب تک ممکن نہیں ہوگا جب تک خواتین کے حقوق میں تبدیلی نہیں آتی، افغان وزارت خارجہ نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی رائے شماری کے بعد کہا تھا کہ تنوع کا احترام کیا جانا چاہیے اور اس پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔