’مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے سبب عید پر بازاروں میں گاہک نایاب رہے‘
رواں سال میٹھی عید کپڑے، جوتے اور مصنوعی زیورات بیچنے والے بہت سے دکانداروں کے لیے کڑواہٹ گھل گئی کیونکہ مہنگائی کے مارے شہریوں کی بڑی تعداد نے قیمتوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے خریداری کے لیے مارکیٹ کا رخ نہیں کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاجروں نے قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی اور درآمدات پر پابندیوں کو ٹھہرایا۔
ایم اے جناح روڈ پر میمن مسجد کے قریب واقع کپڑا مارکیٹ (جسے عام طور پر کاغذی بازار کہا جاتا ہے) میں بغیر سلے کپڑے اور شلوار قمیض کی بھاری قیمتوں کی وجہ سے خریداروں کی کمی دیکھی گئی۔
چیئرمین کاغذی بازار اولڈ سٹی تاجر اتحاد یعقوب بالی نے کہا کہ مردوں کے لیے فیصل آباد سے آنے والے شلوار قمیض کے کپڑے کی قیمت گزشتہ ایک سال کے دوران اوسطاً نصف تک بڑھ گئی ہے یعنی 400 روپے فی میٹر فروخت ہونے والے کپڑے کی قیمت اب 600 روپے ہوگئی ہے۔
گزشتہ سال کے دوران کاٹن کے سوٹ کی قیمتوں میں کم از کم 60 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ورائٹی کے لحاظ یہ 100 روپے سے 1000 روپے فی میٹر میں دستیاب ہیں۔
خواتین کے کپڑوں کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جس کے بعد فی سوٹ 1200 روپے سے 5 ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے۔
یعقوب بالی نے کہا کہ اس عید پر تقریباً 30 سے 40 فیصد مردوں نے شلوار قمیض نہیں سلوائے جبکہ ان میں سے کچھ لوگ، جنہوں نے گزشتہ برس 2 سے 3 سوٹ خریدے تھے، انہوں نے اس بار صرف ایک سوٹ خریدا۔
انہوں نے قیمتوں میں اضافے کے لیے کئی عوامل کو ذمہ دار ٹھہرایا، جن میں روپے کی قدر میں کمی، ایندھن کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے زیادہ اخراجات، بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافہ اور سوت، لیس، کڑھائی اور کپڑے کی بڑھتی قیمتیں شامل ہیں۔
’سوسائٹی صدر کوآپریٹو مارکیٹ لمیٹڈ‘ کے صدر شیخ محمد فیروز نے کہا کہ امپورٹڈ اور مقامی دونوں طرح کے کپڑوں سے بنے شلوار قمیض کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے اس سال عید پر کاروبار کی صورتحال انتہائی مایوس کن رہی۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی شلوار قمیض کی فروخت کم ہو کر 60 فیصد رہ گئی ہے جبکہ مردوں کے سوٹ کی فروخت گزشتہ سال کی عید کے مقابلے میں 40 فیصد رہی، بہت سے تاجر اپنے شلوار قمیض کے اسٹاک کا صرف آدھا فیصد حصہ ہی فروخت کر سکے، روپے کی گراوٹ کی وجہ سے گزشتہ ایک سال کے دوران چینی کپڑے کی قیمت دگنی ہو کر 400 روپے فی میٹر ہو گئی ہے۔
آل سٹی تاجر اتحاد کے سیکریٹری جنرل محمد احمد شمسی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے تیار شدہ درآمدی اشیا پر پابندی، غیر متوقع شرح تبادلہ اور بھاری درآمدی محصولات کے سبب رواں برس عید الفطر کے لیے مارکیٹ میں درآمدی اشیا کی موجودگی مایوس کن رہی۔
نتیجتاً کنفیکشنری، بیکری، بچوں کی اشیا، شیمپو، صابن، کراکری، الیکٹرانک، مصنوعی زیورات وغیرہ کی اسمگلنگ طلب اور رسد کے فرق کو پُر کرتی رہی۔
نارتھ ناظم آباد کی حیدری مارکیٹ میں بچوں کے ملبوسات کے ایک ڈیلر نے کہا کہ ’درآمدی ملبوسات اور جوتے گزشتہ ایک سال کے دوران 40 فیصد مہنگے ہو گئے ہیں جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے صرف ان کی درآمدات 20 فیصدرہیں، رواں برس بچوں کے ملبوسات اور جوتوں کی فروخت 40 فیصد تک رہی‘۔
آل حیدری بزنس ٹریڈرز اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر سید محمد سعید نے کہا کہ ’بچوں کے درآمد شدہ ملبوسات، جوتے، لوازمات وغیرہ کی فروخت کم رہی جبکہ مقامی صنعتوں کی تیار کردہ مصنوعات طلب اور رسد کے فرق کو ختم کرنے میں کامیاب رہیں، تاہم مہنگائی کے سبب عید کی خریداری میں 30 سے 40 فیصد کمی واقع ہوئی‘۔
اگرچہ مقامی صنعت نے بھی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنالی ہے لیکن لوگوں کی قوت خرید میں کمی کے سبب اس کی صلاحیت کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کیا جاسکا۔
سونے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ
دریں اثنا سونے کی قیمتیں گزشتہ روز فی تولہ 686 روپے اضافے کے ساتھ 2 لاکھ 19 ہزار 500 روپے اور 800 روپے فی 10 گرام اضافے کے ساتھ ایک لاکھ 88 ہزار186 روپے ہوکر نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔
آل سندھ صراف جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق عالمی سطح پر سونے کی فی اونس قیمت 6 ڈالر اضافے سے ایک ہزار 990 ڈالر ہوگئی۔
واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں مقامی مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ قیمت ایک لاکھ 87 ہزار 200 روپے اور ایک لاکھ 60 ہزار 494 روپے فی 10 گرام تھی، جبکہ عالمی مارکیٹ میں ایک ہزار 824 ڈالر فی اونس تھی۔