• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

عالمی بینک کو اشیا کی قیمتوں میں بڑی کمی کی توقع

شائع April 28, 2023
عالمی بینک نے بتایا کہ قیمتوں میں کمی سے دنیا بھر میں تقریباً 35 کروڑ افراد کو معمولی ریلیف ملنے کی توقع ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
عالمی بینک نے بتایا کہ قیمتوں میں کمی سے دنیا بھر میں تقریباً 35 کروڑ افراد کو معمولی ریلیف ملنے کی توقع ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

عالمی بینک نے توقع ظاہر کی ہے کہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں رواں سال کے دوران نمایاں کمی ہوگی لیکن اگلے مالی سال کے دوران پاکستان میں اوسط سالانہ مہنگائی 21 فیصد رہے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اشیا کی منڈیوں کے حالیہ منظرنامے میں عالمی بینک نے امید ظاہر کی ہے کہ کووڈ-19 کے بعد رواں برس اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے کمی ہوگی، جس کے سبب دو تہائی ترقی پذیر ملکوں میں معاشی نمو کی صورتحال غیر واضح ہوگی جن کا انحصار اشیا کی برآمدات پر ہوتا ہے۔

عالمی بینک نے بتایا کہ تاہم قیمتوں میں کمی سے دنیا بھر میں تقریباً 35 کروڑ افراد کو معمولی ریلیف ملنے کی توقع ہے جنہیں خوارک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

مزید کہا کہ اگرچہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں 2023 میں 8 فیصد گرنے کی توقع ہے لیکن یہ 1975 کے بعد سے بدستور دوسری بُلند ترین سطح پر رہیں گی۔

یہ رپورٹ وزارت خزانہ کی جانب سے اگلے مالی سال کے لیے تخمینے کے چند روز بعد سامنے آئی ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ (جولائی سے دسمبر) میں قرضوں میں عدم توازن کے بعد خدشہ ہے کہ مالی ضروریات بدستور بلند رہیں گی اور اگلے مالی سال میں مہنگائی کی شرح 21 فیصد ہوگی جو رواں برس 28.5 فیصد ہے۔

عالمی بینک نے نوٹ کیا کہ رواں برس فروری میں عالمی سطح پر غذائی مہنگائی 20 فیصد رہی جو 2 دہائیوں کی بُلند ترین سطح ہے۔

عالمی بینک کے چیف اکانومسٹ اور ڈیولپمنٹ اکنامکس کے سینئر نائب صدر اندرمِت گِل نے بتایا کہ روس کی جانب سے یوکرین پر جارحیت کے بعد اشیائے خورونوش اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ تقریباً گزر چکا، اس کی وجہ معاشی نمو میں سست روی، مناسب سردیاں اور اجناس کی تجارت میں تبدیلیاں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن کئی ممالک میں اس تنزلی سے صارفین کو کم فائدہ ہوگا، حقیقی معنوں میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں گزشتہ 5 دہائیوں کی بُلند ترین سطح پر رہیں گی، حکومتوں کو تجارتی پابندیوں کو ختم کرنا چاہیے اور اپنے غریب شہریوں کا ٹارگٹڈ انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے تحفظ کرنا چاہیے نا کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنا چاہیے۔

گزشتہ سال کے مقابلے میں مجموعی طور پر 2023 میں اشیا کی قیمتوں میں 21 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے، توانائی کی قیمتوں میں رواں برس 26 فیصد کمی کا اندازہ لگایا گیا ہے، رواں برس برینٹ خام تیل کی اوسط قیمت 84 ڈالر فی بیرل رہنے کی توقع ہے، جو 2022 کے اوسط سے 16 فیصد ہے، یورپ اور امریکا میں قدرتی گیس کے نرخوں میں 2022 اور 2023 کے درمیان نصف کمی ہوسکتی ہیں جبکہ کوئلے کی قیمت 2023 میں 42 فیصد کم ہونے کی توقع ہے۔

اسی طرح 2023 میں کھاد کی قیمتوں میں 37 فیصد کمی کی توقع ظاہر کی گئی ہے، جو 1974 کے بعد سے ایک سال میں سب سے زیادہ کمی ہوگی، تاہم کھاد کی قیمتیں اب بھی 09-2008 کے غذائی بحران کے بعد سے زیادہ ہیں، پاکستان کی اہم درآمدات میں تیل، گیس اور کوئلہ شامل ہیں جبکہ گندم اور کھاد ملا کر یہ پاکستان کی مجموعی درآمدات کا نصف بنتا ہے۔

عالمی بینک کے ڈپٹی چیف اکانومسٹ نے بتایا کہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں تنزلی سے مہنگائی کم ہوگی، تاہم مرکزی بینکوں کو متحرک رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ متعدد عناصر بشمول تیل کی توقع سے کم فراہمی، چین میں بحالی، جیو پولیٹیکل تناؤ میں شدت اور غیر موافق موسمیاتی صورتحال قیمتوں میں اضافے کا سبب اور مہنگائی کا دباؤ ہوسکتا ہے۔

رواں برس متوقع بڑی کمی کے باوجود تمام بڑے اجناس گروپوں کی قیمتیں 19-2015 کی اوسط سطح سے کافی زیادہ ہیں، یورپی قدرتی گیس کی قیمتیں اس عرصے کے اوسط سے تقریباً تین گنا ہوں گی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024