• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

بغاوت پر اکسانے کا کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ سے عمران خان کی 3 مئی تک عبوری ضمانت منظور

شائع April 28, 2023
لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم کی 26 اپریل تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی —  فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر
لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم کی 26 اپریل تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی — فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اداروں کے خلاف بیانات دینے سے متعلق مقدمے میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی 3 مئی تک کے لیے ضمانت منظور کرلی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان کی ضمانت منظور کی۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے آج اپنے وکلا کے ذریعے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی اور اس پر آج ہی سماعت کی استدعا کی تھی۔

تاہم رجسٹرار ہائی کورٹ نے درخواست پر اعتراضات عائد کردیے تھے جن میں سے ایک بائیومیٹرک تصدیق نہ ہونا اور دوسرا ٹرائل کورٹ کے بجائے براہِ راست ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا تھا۔

سماعت کا احوال

اسلام آباد پہنچنے کے بعد عمران خان نے ڈائری برانچ میں بائیومیٹرک تصدیق کرائی جس کے بعد درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

عمران خان کی جانب سے وکلا سلمان صفدر، فیصل فرید چوہدری، علی بخاری، ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون اور سرکاری وکیل زوہیب گوندل عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کی ابتدا میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عمران کی درخواست دائر ہونے کے بعد اسی دن سماعت کرنے پر اعتراض کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر دوسروں نے اسی طرح کی درخواستیں دائر کیں تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے۔

تاہم عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ درخواست گزار پاکستان کا رہائشی ہونے کی حیثیت سے ضمانت حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کے مؤقف کو تسلیم کیا، تاہم تجویز دی کہ درخواست گزار کو ضمانت کے بعد متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل کی درخواست پر عدالت نے پی ٹی آئی سربراہ کو تحقیقات کا حصہ بننے کی ہدایت کرتے ہوئے 3 مئی تک ضمانت دے دی۔

کارکنان کی گرفتاریاں

عمران خان کی اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے موقع پر پی ٹی آئی نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے اپنے کارکنان کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے ایک ٹوئٹ کی اور کہا کہ ’ہمارے کارکن پرامن طور پر اپنی گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ریاستی جبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے انہیں باہر نکالا اور اپنے ساتھ لے گئی‘۔

سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ہو کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ جیل اور ہراساں کیے جانے کے خوف سے پی ٹی آئی کو توڑ سکتے ہیں، اس سے کام نہیں چلے گا۔

اسی حوالے سے ایک ٹوئٹ میں اسد عمر نے کہا کہ آج پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر سے بے گناہ شہریوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، آج کا حکومت سے مذاکرات کا سیشن اس وقت تک شروع نہیں ہونا چاہیے جب تک ان بے گناہ لوگوں کو حراست سے چھوڑا نہ جائے۔

جس کے جواب میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والی پی ٹی آئی ٹیم میں شامل رہنما فواد چوہدری نے بتایا کہ وفاقی وزیر سعد رفیق اور اعظم نذیر تارڑ کو کارکنان کی ان غیر ضروری گرفتاریوں سے آگاہ کیا ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیر قانون نے یقین دلایا ہے کہ تمام گرفتار کارکنان کو فی الفور رہا کیا جائے گا۔

اخراج مقدمہ کی درخواست

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 14 اپریل کو سابق وزیراعظم کی 26 اپریل تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔

اس کے بعد 10 اپریل کو سابق وزیر اعظم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اخراج مقدمہ کی درخواست دائر کی تھی۔

مذکورہ سماعت میں عمران کے وکیل فیصل چوہدری نے مقدمے کے اندراج کے دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھایا تھا کہ واقعہ لاہور میں پیش آیا لیکن ایف آئی آر اسلام آباد میں درج کرائی گئی۔

پی ٹی آئی سربراہ کی قانونی ٹیم کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ موجودہ حکومت نے سیاسی وجوہات اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

درخواست کے مطابق حکومت عمران کے خلاف معمولی سی بھی کرپشن ڈھونڈنے میں ناکام رہی اس لیے اب وہ انہیں بلیک میل کرنے کے لیے غیر سنجیدہ مقدمات میں گھسیٹ رہی ہے۔

درخواست میں عدالت سے ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

ایف آئی آر

6 اپریل کو عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں مجسٹریٹ منظور احمد کی مدعیت میں ایک نئی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

مذکورہ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان نے اپنی تقاریر میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی اور ان کے اہلِ خانہ کو ڈرایا دھمکایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ عمران خان نے سرگرم انتہا پسندوں کو اکسا کر اعلیٰ فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگیوں کے لیے مستقل خطرہ پیدا کردیا ہے، انہوں نے پاک فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

مدعی نے مقدمے میں کہا کہ پاک فوج سمیت دیگر تمام اعلیٰ اداروں اور شخصیات جن میں آئینی عہدیداران بھی شامل ہیں، عمران خان کی زبان اور شر سے محفوظ نہیں اور وہ ایک بیرونی سازش اورایجنڈے کے تحت سب کو بدنام کر کے ریاست کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا کہ عمران خان اپنی تقاریر کے ذریعے عوام میں پاک فوج کے خلاف مسلسل نفرت پیدا کر رہے ہیں جن کا مقصد پاک فوج کے اندر ایک سازش کے ذریعے جوانوں کو بہلا پھسلا کر اور غلط بیانی سے اپنے حلق اور افسران کے خلاف بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024