وزیراعظم شہباز شریف پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب
قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے ووٹنگ ہوئی جس میں وزیر اعظم 180 ووٹ لے کر ایوان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔
جمعرات کو ایوان زیریں کے اجلاس کے دوران وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کی تحریک پیش کی۔
ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر نے اعلان کیا کہ 180 اراکین نے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا اور قرارداد کو منظور کیا جاتا ہے، لہٰذا وزیر اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اگر مفتی عبدالشکور زندہ ہوتے تو یہ عدد 181 ہوتا اور میں اپنے سیکریٹریٹ سے کہوں گا کہ جتنے اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے ان کے نام قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر ڈال دیے جائیں۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات کا صرف ایک ایجنڈا ہوگا، پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات، وزیر اعظم
اس موقع پر شہباز شریف نے اعتماد کا ووٹ دینے پر تمام اراکین اسمبلی اور زعما کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تحریک اعتماد پر مجھ ناچیز کو ایک مرتبہ پھر عزت سے نوازا اور 180 ووٹوں سے مجھے اعتماد کا ووٹ دلوایا جس کے لیے میں سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان شدید مشکلات میں ہے اور وہ میری وجہ سے یا اس ایوان کی وجہ سے نہیں بلکہ 2018 میں اس ملک کی معیشت دنیا میں مانی ہوئی تھی جو بہت تیزی سے ترقی کر رہی تھی، اس کے بعد ایک الیکشن کے نتیجے میں آج ہر چیز سامنے آچکی ہے کہ وہ فراڈ الیکشن کس طرح ہوئے، کس طرح جنوبی پنجاب کے کچھ لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ آپ فلاں کے ٹکٹ چھوڑیں اور دوپٹہ پکڑ لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کس طرح آر ٹی ایس کو بند کروایا گیا اور پاکستان کی 75 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ شہروں کے نتائج ہمیشہ دیہاتوں سے جلدی آتے ہیں لیکن یہ تاریخ کا پہلا الیکشن تھا جس میں دیہاتوں کے نتائج چند گھنٹوں میں آنا شروع ہو گئے اور شہروں کے نتائج مہینوں التوا کا شکار ہوگئے اور جب گنتی کرانے کے لیے درخواست ڈالی گئی تو ایک شخص تھا جس کا نام تھا ثاقب نثار، اس نے حکم دے دیا کہ اس کے بعد کوئی گنتی نہیں ہوگی اور کیا کیا دھاندلی کے لیے انتظامات کیے گئے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جب آج ایوان نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ تو میں آپ کو وہ دن یاد دلانا چاہتا ہوں جب اسی فلور پر اسی وقت کی حکومت کے نمائندوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اپوزیشن کے دھاندلی کے الزام کی مکمل تحقیق ہوگی، آج تک اس کی تحقیق نہیں ہوئی، پانچ سال گزرنے کو ہیں، میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ اس دھاندلی کی بھرپور تحقیقات کرائیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے دیں تاکہ قوم کو پتا لگے کہ کس طرح مینڈیٹ چرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہماری آئی ایم ایف سے بات چیت بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی تو عمران نیازی کے اشارے پر دو صوبائی وزرائے خزانہ کو یہ کہا گیا کہ نئی وفاقی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کے لیے آپ کہہ دیں کہ ہم یہ شرائط نہیں مانتے، یہ وہ سازش ہے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سائفر کو آپ اچھے طریقے سے جانتے ہیں، امریکا کو کس طرح نشانہ بنایا گیا کہ اس نے سازش سے اس حکومت کو بدلا اور یہ ایک امپورٹڈ حکومت ہے اور کس طرح چین اور روس کے حوالے سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا، لیکن وہ ہمدردی کا اظہار نہیں تھا بلکہ مگرمچھ کے آنسو تھے۔
شہباز شریف نے کہا کہ وزیر خزانہ اور دیگر زعما کی کاوشوں سے اس وقت جب میں آپ سے گزارشات کر رہا ہوں تو روس میں پاکستان کے لیے سستے تیل کے جہاز میں تیل ڈالا جا رہا ہے اور وہ جلد پاکستان تیل لے کر آئے گا، یہ ہے وہ بدترین سازش جو پاکستان کے خلاف کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار اور طارق رحیم کی آڈیو لیک ہو کر سوشل میڈیا پر آئی ہے، وہ مین اسٹریم میڈیا پر بھی چل رہی ہے اور وہ سازش کھل کر سامنے آگئی کہ وہ ثاقب نثار جس نے الیکشن پی ٹی آئی کو جتوانے کے لیے دھاندلی کا بازار گرم کیا، شیخ رشید کے حلقے میں وہ چیف جسٹس نہیں بلکہ ان کے پولیٹیکل ایجنٹ بن کر پہنچ گئے، وہ ثاقب نثار جس نے پاکستان کے اندر ہسپتالوں کا نظام تباہ کردیا، وہ ثاقب نثار جس نے ڈھائی سال دن رات سوموٹو لے کر اس قوم کا حلیہ بگاڑ دیا، وہ ثاقب نثار جس نے پی کے ایل آئی میں اپنے بھائی کو بھرتی کرانے کے لیے اس کا بیڑا غرق کردیا اور جن سینکڑوں مریضوں کی گردوں کی پیوند کاری ہونی تھی، وہ موت کے منہ میں چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج وہ ثاقب نثار جن کا کردار پوری قوم کے سامنے آگیا ہے، ان کی طارق رحیم سے گفتگو کے بعد کیا کوئی شک رہ گیا ہے کہ یہ سازش میرے خلاف، اس حکومت یا اس ایوان کے خلاف نہیں ہے، یہ پاکستان کے خلاف سازش ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مجھے پارلیمان نے منتخب کیا ہے اور اگر یہ پارلیمان فیصلہ کرتی ہے اور اپنی بحث کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتی ہے اور کابینہ کو پابند کرتی ہے تو میرا فرض ہے پارلیمان کے فیصلے کا احترام کروں، انہوں نے جو فیصلے کیے ہیں، جو قراردادیں انہوں نے منظور کی ہیں، میں اور میری حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
’ایوان کا فیصلہ تین رکنی بینچ کیلئے ہے جسے ہم نہیں مانتے‘
انہوں نے کہا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ پارلیمان قانون بنائے اور قانون کی شکل اختیار کرنے سے پہلے عدلیہ اس پر حکم امتناع دے دے، یہ ممکن نہیں ہے، آئین کو بنانا اور اس میں ترمیم کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، عدلیہ کو آئین ری رائٹ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، آج قانون اور آئین کی یہ خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس پر اگر پارلیمان کھڑے ہو کر یہ کہے کہ ہم اس کی اجازت نہیں دیتے تو پھر اس کے اوپر توہین عدالت کا وار کرنے کی دھمکی دی جائے اور فیصلے میں لکھا جائے کہ آپ نے ہمارا حکم نہیں مانا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا وزیر اعظم ایوان کی اکثریت کھو بیٹھا ہے لیکن آج ایوان نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ان تین رکنی بینچ کے لیے ہے اور ہم اس تین رکنی بینچ کو نہیں مانتے، ہم چار تین کے فیصلے کو مانتے ہیں، انہوں نے ظلم و زیادتی کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کردیا، نواز شریف کو نااہل کردیا گیا، یوسف رضا گیلانی کو نااہل کردیا گیا اور آج اگر اس پارلیمان نے مجھے جو اعتماد کا ووٹ دیا ہے، اس کی پاداش میں اگر مجھے گھر بھجواتے ہیں تو ہزار بار جانے کو تیار ہوں لیکن میں ان کا مان نہیں توڑوں گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ گفتگو کریں، ہم سیاستدان ہیں، ہم تو بات چیت کرتے ہیں، ہم نے خود فیصلہ کیا، میری پارٹی کے زعما نے میری رہنمائی کی کہ وزیر اعظم ہم سب اکٹھا ہیں، آپ پی ٹی آئی کو دعوت دیں، مجھے جماعت اسلامی کے زعما ملے، ہماری حکومت میں بعض زعما ایسے ہیں جو اس بارے میں بڑا سخت مؤقف رکھتے ہیں لیکن ان کی بھی ہم نے منت سماجت کی کہ بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل ہم نے فیصلہ کیا کہ سینیٹ میں ہاؤس آف فیڈریشن میں ہم اپنے نمائندے بھیجیں گے، ہم نے اس کے لیے مشاورت کی اور آج امید ہے کہ وہاں ہم بات چیت کا آغاز کردیں گے لیکن بات چیت کا ایجنڈا کیا ہو گا، یہ ہے اصل بات کہ پورے پاکستان میں ایک دن الیکشن ہوگا، شفاف الیکشن ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ بار بار پنجاب میں الیکشن کی بات کرتی ہے، خیبر پختونخوا تو ان کو یاد نہیں آیا، ایک لفظ خیبر پختونخوا کے بارے میں نہیں کہا، اس کا مطلب ہے کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن ہوں نہ ہوں، عدالت عظمیٰ کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک پارٹی ہے، جس کا ایک مذموم ارادہ ہے کہ وہ یہاں جمہوریت کی آڑ میں فاشزم لانا چاہتی ہے، آمریت لانا چاہتے ہیں، ان کا دور ہم نے چار سال میں دیکھ لیا، بھگت لیا لیکن یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ میرے ساتھیوں نے جرأت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ اگر صرف پنجاب میں چھ مہینے پہلے الیکشن ہوں گے تو اس سے کیا پیغام جائے گا کہ پنجاب خدانخواستہ باقی صوبوں کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے، پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، اگر وہاں ایک پارٹی جیت جاتی ہے یا کوئی دوسری پارٹی جیت جاتی ہے تو پھر چھ ماہ بعد وفاق سمیت جو باقی پاکستان میں الیکشن ہو گا، اس کا اس الیکشن پر کیا اثر پڑے گا، کیا وہ شفاف الیکشن ہوں گے، کیا وہ پاکستان کو آگے لے کر جائیں گے، اس سے مزید مسائل کھڑے ہوں گے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایک دن الیکشن ہوں اور شفاف الیکشن ہوں، اس کے لیے اگر پی ٹی آئی تیار ہے تو ہم نے اپنا وقت نامزد کردیا ہے اور ان کے ساتھ جاکر بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ 2018 کے الیکشن سے لے کر ان کی حکومت کے ختم ہونے تک ان کو ایک ایک بات کا جواب دینا ہوگا کہ کس طرح نیب ۔ نیازی نے مل کر آصف زرداری کی بہن کو جیل بھجوایا، کس طرح نیب ۔ نیازی نے مل کر نواز شریف کی بیٹی کو جیل سے گرفتار کیا، کس طرح جھوٹے مقدمات کے انبار لگا دیے، ثاقب نثار کو اس وقت تو یاد نہیں آیا، وہ ہر روز سوموٹو لیتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین نے اورنج لائن کا تحفہ دیا، وہ منصوبہ دو سال تاخیر کا شکار رہا کیونکہ پی ٹی آئی نے اس کے خلاف درخواست دائر کردی اور جب ہم لاہور ہائی کورٹ سے سرخرو ہوئے تو پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں اپیل کردی، یہاں فیصلے کے بعد آٹھ مہینے وہ فیصلہ نہیں سنایا گیا اور اس کے پیچھے کردار ثاقب نثار تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ڈر تھا کہ اگر یہ منصوبہ مسلم لیگ یا نواز شریف کے دور میں چل پڑا تو کہیں ووٹوں کا پلڑا مسلم لیگ (ن) میں نہ چلا جائے، یہ ہیں وہ سازشیں جو پاکستان کے خلاف کی گئیں اور آج یہ ہمیں سبق دیتے ہیں کہ میں کشمیر تو نہیں بیچ دیا، آپ نے تو پاکستان کو بیچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، انہوں نے اورنج لائن میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا اور چین کا اعتماد مجروح کیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بی آر ٹی پشاور میں کیا ہوا، اسٹے آرڈر پر اسٹے آرڈر دیے گئے اور نیب چیئرمین کہتا ہے کہ میں کیا کروں، اسٹے آرڈر ہے، وہاں تو اسٹے آرڈر ہے اور یہاں پر دن رات فیصلے ہو رہے ہیں اور جھوٹے مقدمے میں ہمیں جیلوں میں بھجوایا جا رہا ہے، یہ ہیں وہ کردار جنہوں نے پاکستان کے خلاف بدترین سازش کی اور چاہے مولوی تمیز الدین کا کیس ہو، چاہے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا کیس، چاہے نواز شریف یا مخدوم یوسف رضا گیلانی کا کیس ہو، جب تک یہ کردار کٹہرے میں نہیں کھڑے کیے جائیں گے، پاکستان میں عدل و انصاف ہمیشہ ناپید رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے لیے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ ایک طرف 8، 8 منٹ میں 8، 8 کیسوں میں ضمانتیں اور ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی رعایتیں دی جا رہی ہیں اور دوسری جانب ہم تھے کہ چند منٹ بھی تاخیر کا شکار ہو جاتے تھے تو ہمارے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہو جاتی تھی، یہ دہرا نظام عدل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی مخالفین کو عمران نیازی کے دور میں چاند راتوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا تھا، فریال تالپور کا خاتون ہونے کے ناطے بھی لحاظ نہیں کیا گیا، میں عدلیہ سے کہتا ہوں کہ ہم سے سوال کرنے سے پہلے اپنا بھی احتساب کریں کہ کتنے ججز کو کرپشن پر سزا دی، تب ہی عدلیہ کو عزت ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ساری قوم جاننا چاہتی ہے کہ اس ملک میں جہاں ایک طرف سینکڑوں قیدی ایسے ہیں جن کی ضمانت کی درخواستیں 8، 8 سال سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوتیں، ایسے میں ایک لاڈلے کے لیے سوموٹو کیوں آجاتا ہے، اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف نے اعلان کیا کہ پارلیمان کی عزت، توقیر، احترام اور آئینی اختیار کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی، عوام کے منتخب اس ایوان کے پاس یہ اختیار ہمیشہ رہے گا اور میں اس پارلیمان کے ساتھ کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا۔
ججز سے پوچھا جائے وہ کس آئین کے تحت ایوان کو قانون سازی سے روک سکتے ہیں، اسعد محمود
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے کہا کہ ہم یہاں 22 کروڑ عوام کے محافظ آئین کا تحفظ کر رہے ہیں، اس آئین کی حفاظت کر رہے ہیں جس نے رٹ آف دی گورنمنٹ کا نفاذ کرنا ہے جس پر کبھی مارشل کے ذریعے اور کبھی دوسرے حربوں سے حملہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں ملک میں قدامت پرست یہودیوں کا ایک نمائندہ متعارف کرایا جاتا ہے، دنیا بھر میں اسرائیلی مفادات کے لیے آواز بلند کرنے والوں کا نمائندہ متعارف کرایا گیا، وہ نمائندہ پاکستان میں انہی نظریات کے لیے کام کر رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہاں وزیر اعظم نے مذاکرات کی بات کی، ہم اصولی طور پر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاست دان مذاکرات کریں گے لیکن کسی کے دباؤ پر وہ مذاکرات کریں گے، ہم اس دباؤ سے انکار کرتے ہیں، ہم نے پہلے بھی انکار کیا ہے، ہم پھر انکار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے چیئرمین سینیٹ نے ایک کمیٹی کی بات کی، ہمارا اور اتحادی حکومت کا نقطۂ نظر صرف یہ تھا کہ ہم پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات چاہتے ہیں، ہم سپریم کورٹ میں گئے ہمیں فریق نہیں بنایا گیا، ہمارے خلاف فیصلہ دیا گیا، ہم نے کہا ہمیں فل کورٹ دیں، جو بھی فیصلہ ہوگا، ہمیں منظور ہوگا لیکن انہوں نے یکطرفہ فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد یہ ایوان حرکت میں آیا، یہاں قراردادیں منظور ہوئیں، ان کے خلاف جس طرح کے فیصلے جاری ہوئے، اس پر جس طرح سے بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا، ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تین ججز صاحبان کو ایوان کی استحقاق کمیٹی میں بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ آپ اس طاقتور ایوان کو قانون سازی سے کیسے، کس آئین، کس قانون کے تحت روک سکتے ہیں۔
انتخابات کیلئے 21ارب کے اجرا کا بل ایوان میں پیش کرنے کی تحریک مسترد
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ جات کی روشنی میں کل میں نے کابینہ کا فیصلہ رکھا اور پھر وزیر خزانہ صاحب نے بھی ایوان رائے مانگی تھی، اس پر کل بھی گفتگو ہوئی اور آج بھی اظہار خیال کیا گیا ہے، تو میری یہ استدعا ہو گی کہ ایوان میں سوال رکھا جائے کہ آیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو جو پھر ہدایت کی ہے کہ وہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے لیے 21ارب روپے اخراجات کی مد میں سپلیمنٹری گرانٹ جاری کرے اور اس کے لیے آج کی تاریخ مقرر کی گئی تھی، تو وفاقی حکومت نے کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ کیونکہ یہ ایوان دو دفعہ بارے میں اس رائے کا اظہار کر چکا ہے تو اس ایوان کی رائے مقدم ہے کیونکہ کوئی بھی فنڈ اس معزز ایوان کی اجازت سے مشروط ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ نظرثانی کے حوالے سے رائے لے لی جائے کہ آیا یہ ایوان اجازت دیتا ہے کہ وفاقی حکومت 21ارب روپے کی گرانٹ کی فراہمی کے لیے بل اس ایوان میں لائے یا نہیں جس پر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے ان سے کہا کہ وہ باقاعدہ بل پیش کریں۔
اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے 21اپریل 2023 کو جاری کردہ حکم کی روشنی میں اور وفاقی کابینہ کے کیے گئے فیصلے کی روشنی میں، کیا یہ ایوان وفاقی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ 21ارب روپے کے فنڈز پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے جاری کرنے کے لیے اس ایوان میں بل پیش کرے۔
اسپیکر نے بل پیش کرنے کے حوالے سے تحریک ایوان میں پیش کی جسے اکثریت رائے سے مسترد کردیا گیا۔
تین ججوں کا کوئی فیصلہ منظور نہیں، خواجہ آصف
اس موقع وزیر دفاع خواجہ آصف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر مجھے نااہل کیا جاتا ہے تو میں اس ایوان کی تکریم کے لیے 100 مرتبہ اس کو تسلیم کروں گا لیکن میں واضح کردوں کہ اس وقت تین جج پی ٹی آئی کی جو سہولت کاری کررہے ہیں، تو ہمیں ان کا کوئی فیصلہ منظور نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے چند ہفتوں میں جو رویہ دکھایا گیا ہے، جو سہولت کاری کی گئی ہے، جس طرح فیصلے کیے گئے ہیں، جس طرح ہمیں ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ سپریم کورٹ ہے، یہ عدالت عظمیٰ ہے، مجھے عدالت عظمیٰ کا احترام ہے، جس طرح چار تین کے فیصلے کا احترام ہے اسی طرح باقی فیصلوں کا بھی ہے لیکن فیصلے کسی کو محفوظ بنانے کے لیے صادر کیے جائیں، کسی کے مقصد کے حصول کے لیے صادر کیے جائیں تو ہمیں قبول نہیں ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس تین دو کے بینچ نے جو مظاہرہ پچھلے چند ہفتوں میں کیا ہے، ہمیں اس کے فیصلے قابل قبول نہیں ہے اور ایوان بار بار کہہ چکا ہے کہ ہمیں یہ فیصلے قبول نہیں ہیں۔