ماہر سے کرائے جانے کی صورت میں پولی گراف ٹیسٹ کارآمد ہے، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پولی گراف ٹیسٹ سچائی کا پتا لگانے کے لیے ایک مفید تفتیشی تکنیک ہے لیکن اس کا انحصار جانچ کرنے والے کے علم اور مہارت پر ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قتل کے ملزم کی بریت کے فیصلے میں جسٹس محمد امجد رفیق نے کہا کہ ماضی میں پولی گراف ٹیسٹ کو غیر نتیجہ خیز اور ذاتی آزادی اور بنیادی حق میں دخل اندازی کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اسے رضامندی کے بغیر نہیں کیا جانا چاہیے۔
تاہم جج نے کہا کہ کئی ایسی تحقیق ہیں جو ٹیکنالوجی میں ترقی کے بعد نتائج کی درستی میں بہتری کو ظاہر کرتے ہیں۔
جج کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کرنے والے کی قابلیت اور صلاحیتوں، جسمانی حالات جن کے تحت ٹیسٹ لیا جاتا ہے، سوالات کو ترتیب دینے کے طریقے اور امتحانی مضمون کے ذریعے ’جوابی اقدامات‘ کے ممکنہ استعمال پر اعتراضات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ پولی گراف ٹیسٹ پر کی جانے والی ایک اہم تنقید یہ ہے کہ بعض اوقات اضطراب اور خوف جیسے احساسات سے پیدا ہونے والے جسمانی ردعمل کو غلط سمجھا جا سکتا ہے، لیکن براہ راست ثبوت اکٹھا کرنے کے لیے یہ ایک بہترین تفتیشی آلہ ہو سکتا ہے۔
مجرم/اپیل کنندہ کا ٹیسٹ کرنے والے کی مہارت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ ’یہ ظاہر ہے کہ ماہر نے سوال کی تشکیل کے دوران معاملے میں حقائق کا پتا لگانے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کی‘۔
جج نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ٹیسٹ کرنے والے کی جانب سے پوچھے گئے سوالات نے کسی بھی صورت میں جھوٹ کا پتا لگانے یا کوئی اضافی معلومات فراہم کرنے میں مدد نہیں کی، تاکہ ملزم کی سچائی کے حق میں یا اس کے خلاف رائے قائم کرنے میں قابل قدر مدد شامل ہوسکے۔
جج نے کہا کہ ’ٹیسٹ کو نہ صرف مسئلے یا متعلقہ حقائق سے متعلق سوالات بلکہ جرم سے متعلق درکار کچھ مزید معلومات کے لیے وضاحت پر مبنی ہونا چاہیے‘۔
پولی گراف ٹیسٹ کے ذریعے سچائی نکالنے کی مکمل کوشش کی تکنیکوں پر روشنی ڈالتے ہوئے جسٹس امجد رفیق نے سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے 5 مئی 2010 کو دیے گئے فیصلے کا حوالہ دیا۔
جج کا کہنا تھا کہ استغاثہ پولی گراف ٹیسٹ کا اچھا استعمال کر سکتا ہے بشرطیکہ یہ ایک معلومات رکھنے والے ماہر سے کروایا جائے جس میں تینوں تکنیکوں کے بعد آواز اور متعلقہ سوالات کی تشکیل کی جائے تاکہ جرائم سے متعلق معلومات کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا جا سکے۔
جج نے کہا کہ دستیاب مطالعات کی بنیاد پر ماہرین ایک قابل ٹیسٹ کرنے والے کے پولی گراف نتائج کی درستی کا اندازہ لگ بھگ 90 فیصد تک لگاتے ہیں کیونکہ ٹیسٹ کرنے والے کی مہارت اور تجربہ ٹیسٹ کے نتائج کی درستی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ملزم محمد اسلم کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے جج نے کہا کہ استغاثہ ملزم کے خلاف کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر جرم ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔
خیال رہے کہ دیپالپور کی ٹرائل کورٹ نے اپیل گزار کو قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
اپیل کنندہ کا پولی گراف ٹیسٹ کروایا گیا تھا لیکن ٹیسٹ کرنے والے نے اس کی سچائی کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی تھی۔