’ڈیوٹی ڈاکٹرز سے کہہ دیجیے مریضہ کی حالت دیکھ کر زیادہ شور نہ مچائیں‘
’آپ لوگ غلط سیزیرین کرتے ہیں، کمائی کے لیے‘، ایک ڈاکٹر دوست کا الزام۔
’نہیں ایسا نہیں ہے، سرکاری اسپتالوں میں تو صرف ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے لیکن پرائیویٹ اسپتالوں کا مفاد اور سہولیات کی کمی ایک علیحدہ مسئلہ ہے‘، ہمارا جواب۔
’یہ تو بہانے ہیں محض۔۔۔ ہمارے دوست کی بیگم کا اپنا اسپتال ہے اور ان کی پورے علاقے میں شہرت ہے کہ وہ نارمل ڈلیوری کرواتی ہیں اور شاذ و نادر ہی کسی کو سیزیرین کی ضرورت پڑتی ہے۔ لوگ دُور دُور سے ان کے اسپتال میں آتے ہیں‘۔
’کتنی ڈلیوریاں کرواتی ہیں وہ مہینے کی؟‘ ہم نے پوچھا۔
’تقریباً 400 سے 500 ۔۔۔‘
’اور ان میں سیزیرین کی شرح؟‘ ہمارا سوال۔
’تقریباً ایک فیصد۔۔۔‘ جواب۔
’یعنی 400 میں سے 4۔۔۔؟ کیسے ممکن ہے یہ؟ عالمی ادارہِ صحت کے مطابق کم سے کم شرح 20 فیصد ہونی چاہیے وہ بھی پوری سہولیات اور ٹیم کے ساتھ۔۔۔ اور اب تو زیادہ تر ممالک میں یہ 30 سے 35 فیصد ہے جن میں امریکا بھی شامل ہے‘۔
’ایک ڈاکٹر اکیلی اپنے اسپتال میں ایک فیصد سیزیرین کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔۔۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ وہاں صحیح کام ہو رہا ہے؟‘
’100 فیصد۔۔۔‘
پھر یہ بتائیے کہ جن کیسز میں آنول نیچے ہوتی ہے، بچہ الٹا یا ترچھا ہوتا ہے، بچے دانی کا منہ کھلنے میں بہت تاخیر ہوتی ہے، بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہوجاتی ہے، آنول پھٹ جاتی ہے یا بچے دانی۔۔۔ ایسے میں وہ کیا کرتی ہیں؟ اور اگر ان 400 عورتوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تو یہ ناقابلِ یقین ہے۔۔۔ میڈیکل جرنل میں رپورٹ ہونا چاہیے اسے۔۔۔’
یہ گفتگو ایک دوست ڈاکٹر کے ساتھ ہوئی جو ایک اور ڈاکٹر کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ شدید حیرت اور ان گنت سوالوں نے ہمیں گھیر لیا تھا۔
خیر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ ہمیں جواب ملنا ہی تھا۔
کچھ مدت کے بعد ہم اس شہر جا پہنچے جہاں کے نواحی علاقے میں ان کا اسپتال تھا۔ ہماری پوسٹنگ شہر کے ٹیچنگ اسپتال میں تھی۔ دوست ڈاکٹر کی وساطت سے تھوڑا بہت ملنا جلنا ہوا، ہم انہیں ویسے بھی جانتے تھے کہ میڈیکل کالج میں ہماری سینیئر رہ چکی تھیں۔
اسپتال میں جب کچھ مہینے گزر گئے تو باتوں باتوں میں ساتھی ڈاکٹرز سے علم ہوا کہ نواحی علاقوں کے پرائیویٹ اسپتالوں سے جو مریض ادھ موئی کیفیت میں ریفر ہو کر ہمارے اسپتال پہنچتے ہیں ان میں ان ڈاکٹر کا اسپتال سر فہرست تھا جن کی نارمل ڈلیوری کی شہرت اور مہارت کے چرچے ہم تک پہلے سے پہنچ چکے تھے۔ ہائیں۔۔۔ ہمارا دل بند ہوتے ہوتے بچا۔
خیر بعض اوقات ٹیچنگ اسپتالوں میں کام کرنے والے رائی کا پہاڑ بھی بنا لیتے ہیں، ہم نے اپنے آپ کو تسلی دی۔
کچھ اور ماہ گزر گئے۔
ایک شام انہی لیڈی ڈاکٹر کے شوہر کا فون آیا کہ ’ہم ایک مریضہ ریفر کرنا چاہتے ہیں جو باوجود کوشش کے ڈلیور نہیں ہورہی۔۔۔ پہلا بچہ ہے۔۔۔‘
’کر دیجیے۔۔۔‘ ایمرجنسی لینے سے تو کوئی بھی اسپتال انکار نہیں کرتا۔
’ریفر تو ہم کر رہے ہیں لیکن۔۔۔‘ وہ کہتے کہتے رک گئے۔
’جی۔۔۔ جی۔۔۔ فرمائیے؟‘
’وہ آپ سے ایک فیور چاہیے تھا۔۔۔‘
وہ کیا؟
’آپ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز سے کہہ دیجیے کہ مریضہ کی حالت دیکھ کر زیادہ شور نہ مچائیں۔ جونیئر ڈاکٹرز گھر والوں کو خوب سناتے ہیں کہ یہ کس حالت میں لے کر آئے ہو؟ پھر گھر والے ہم سے لڑنے آجاتے ہیں‘۔
’اوہ۔۔۔ یقیناً مریضہ کی حالت زیادہ خراب ہے۔۔۔‘ ہم نے دل میں سوچا۔
’آپ مریض فوراً بھیجیے ہم اسپتال کال کرتے ہیں ابھی‘۔
اسپتال کال کی اور اپنے ڈیوٹی ڈاکٹرز سے کہا کہ ایک مریضہ آرہی ہے فلاں اسپتال سے۔۔۔ لے کر فوراً ہمیں بتانا، اور جو بھی کرنا ہو فوراً کرنا۔۔۔ اور دیکھو رشتے داروں کے سامنے زیادہ شور مت مچانا’۔
’آپ کو بتایا تھا ناں ہم نے اس اسپتال کے بارے میں‘۔
’ہاں ٹھیک ہے لیکن ابھی ایک عورت کی زندگی کا سوال ہے‘۔
اپنے اسٹاف سے بات کرکے ہم نے انہیں گرین سگنل دے دیا۔ ہمارا خیال تھا کہ آدھے گھنٹے کے اندر ہماری ڈاکٹر فون پر ہم سے رابطہ کریں گی۔
ایک گھنٹہ۔۔۔ ڈیڑھ۔۔۔ دو گھنٹے۔۔۔ ڈھائی۔۔۔ آخر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ہم نے ڈیوٹی ڈاکٹر کو پھر سے فون کیا۔
’آپ نے مریضہ کے متعلق ہمیں بتایا ہی نہیں، ہم انتظار میں بیٹھے ہیں تب سے‘۔
’جی بتا دیتے اگر مریضہ پہنچ جاتی۔۔۔‘ ڈاکٹر کا جواب۔
’کیا مطلب؟‘ ہم نے حیرانی سے پوچھا۔
’جی مریضہ آئی ہی نہیں، ہم تو انتظار میں بیٹھے ہیں۔
ہمیں سن کر شدید حیرت اور پریشانی ہوئی کہ مریضہ کہاں گئی؟ ان کے مطابق تو وہ مریضہ کو ایمبولینس میں لٹانے ہی والے تھے۔
خیر اس اضطراب میں ہم نے انہیں فون کیا۔ دو تین بار تو انہوں نے اٹھایا نہیں، پھر ہم کہاں چپ رہنے والے تھے۔ فون گھماتے رہے جب تک انہوں نے اٹھا نہیں لیا۔
’وہ آپ کی مریضہ پہنچی نہیں، اسٹاف انتظار میں بیٹھا ہے‘، ہم نے بے چینی سے پوچھا۔
’وہ۔۔۔ اصل میں۔۔۔ وہ۔۔۔‘ انہیں جواب دینا مشکل تھا۔
’کیا ہوا؟‘
وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ راستے میں ہی ایکسپائر کرگئی’، وہ انتہائی دھیمی آواز میں بولے۔
’کیا؟۔۔۔ نہیں۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ کیسے؟‘
’وہ بلیڈنگ ہوئی بہت زیادہ۔۔۔ تو بس راستے میں ہی چل بسی‘۔
لیکن راستہ تو 20، 25 منٹ سے زیادہ نہیں۔’
’جی بس۔۔۔‘
اس سے زیادہ کی ہمت ہم میں نہیں تھی۔ ہم ساری رات سو نہیں سکے۔ وہ مریضہ جسے ہم نے دیکھا تک نہیں تھا اس کی چیخیں کانوں میں گونجتی رہیں، جو پہلا بچہ ڈلیور کروانے اسپتال گئی تھی۔
ہمیں نارمل ڈلیوری کے متعلق وہ ساری بحث یاد آگئی جس کے مطابق وہ ڈاکٹر سب کو نارمل ڈلیور کرواتی ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ ان میں سے کتنی عورتیں موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔
اس میں قصور ان لوگوں کا بھی ہے جو نارمل ڈلیوری کو حرف آخر سمجھتے ہوئے سیزیرین کو پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
چلیے مان لیا۔۔۔ یہ ہے ایک پیسے کمانے کا ذریعہ۔۔۔ لیکن جہاں ضرورت ہو اور جہاں ماں بچے کی سیفٹی کا کچھ بھی انتظام نہ ہو ، وہاں ایسا خطرہ کیوں مول لیا جائے؟
اگر کچھ پیسوں کے عوض آپ کی بیٹی، بہو ، بہن بچے سمیت گھر زندہ سلامت آجائے تو کیا یہ برا سودا ہے؟
اگلی بار ہم آپ کو اپنی بہن کی کہانی سنائیں گے۔