لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پولیس کو عمران خان کو ہراساں کرنے سے روک دیا
لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پولیس کو عمران خان کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے کہاہے کہ کیس کی سماعت تک سائل کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ایک ہی نوعیت کے مقدمات کے اندراج اور تادیبی کارروائی کے خلاف درخواست کی جلد سماعت کی استدعا کی تھی۔
عمران خان نے درخواست کو آج سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست سماعت کے لیے لارجر بینچ کو بھجوائی لیکن ریاستی مشینری کا استعمال کر کے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عمران خان کی درخواست کو آج ہی مقرر کرنے کا حکم دے۔
اس کے علاوہ عید کے دنوں میں زمان پارک میں ممکنہ آپریشن روکنے کے لیے بھی لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں آئی جی پنجاب، چیف سیکریٹری سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ پولیس کی جانب سے عید کے دنوں میں زمان پارک میں آپریشن کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، تمام کیسز میں ضمانت پر ہوں لیکن پولیس ہراساں کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ زمان پارک میں ممکنہ آپریشن روکنے کے بارے میں حکم امتناع جاری کرے۔
بعدازاں، جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کی زمان پارک میں ممکنہ آپریشن روکنے اور تادیبی کارروائیوں کے خلاف درخواست پر سماعت شروع کی۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے موقف اپنایا کہ دو رکنی بینچ نے یہ کیس لارجر بینچ کو بھجوایا، عمران خان کے خلاف ایک کے بعد ایک کیس درج ہو رہا ہے، پنجاب میں عمران خان کے خلاف 80 کیسز درج کیے گئے ہیں۔
وکیل نے کہاکہ عدالتیں پولیس کے اختیارات کے غلط استعمال کو دیکھ سکتی ہیں، ہم اس معاملے میں بھی عدالت کی مداخلت چاہتے ہیں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ہم آج صرف متفرق درخواست سن رہے ہیں ، متفرق درخواست مرکزی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہے، کچھ عرصہ پہلے ہم نے زمان پارک کے باہر افسوسناک صورتحال دیکھی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ آج تک کے تمام کیسز میں عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے، ہمیں اطلاع ملی ہے کہ عید کی چھٹیوں کے دوران کوئی آپریشن ہو سکتا ہے لہٰذا پانچ دن کے لیے ہمیں ریلیف دے دیں کیونکہ پانچ دن کے لیے عدالتیں اور انصاف کے دروازے بند ہوں گے۔
اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ انصاف کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہاکہ میں بڑا حیران ہوں کہ درخواست گزار یہ پرمیشن لینا چاہتا ہے کہ کوئی آپریشن نہ ہو، یہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ آپریشن ہو گا، اگر کوئی پلاننگ ہے تو یہ ثبوت فراہم کریں۔
انہوں نے کہا کہ قانون نتھو اور پتھو سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، یہ درخواست محض خدشات کی بنیاد پر دائر کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ابھی تک آپریشن کے حوالے سے کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے، اگر کوئی قابل جرم کام ہو گا تو قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔
اس موقع پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہاکہ پرانے کیسز میں کوئی کارروائی نہیں ہو گی کیا آپ یہ بیان دیتے ہیں؟
اس پر پنجاب حکومت کے وکیل غلام سرور نہنگ نے کہا کہ لیگل پروسیڈنگز جن کیسز میں جاری ہیں وہ جاری رہیں گی۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ یہی سوال آپ سے ایک اور انداز سے پوچھتے ہیں کہ آپ انہیں عید کرنے دیں گے یا نہیں۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی بنائی گئی ہیں لیکن جے آئی ٹی کو کام سے نہیں روکا جا سکتا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ اگر درخواست گزار ضمانت پر ہیں تو آپ انہیں چھو بھی نہیں سکتے، ہم قانونی کارروائی روکنے کا نہیں کہہ رہے۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہاکہ ان کے پاس ساری انفارمیشن ہے کہ کتنے مقدمات میں یہ ضمانت پر ہیں، جس کیس میں ضمانت پر ہیں اس کیس میں تو کارروائی نہیں کریں گے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ پانچ سو لوگ اکٹھے ہو کے کراچی والا الطاف حسین والا معاملہ نہیں کر سکتے، ہم صرف قانون کے مطابق کام کریں گے، قانون سے ہٹ کر نہیں کریں گے۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ قانون کے منافی کچھ نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ملزم کے بھاگنے کا خطرہ نہیں ہے تو انویسٹی گیشن معطل کی جا سکتی ہے ۔
اس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے جرح جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ اختیار تفتیشی افسر کا ہے، زمان پارک سے پولیس پر پیٹرول بم پھینکے گئے جس میں 69 افسران افسران زخمی ہوئے۔
اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ سر میں دو منٹ بات کرنا چاہتا ہوں اور روسٹرم پر آ گئے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ آج تک میں نے کوئی قانون نہیں توڑا لیکن میرے خلاف درجنوں مقدمات درج کیے گئے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ خان صاحب یہ باتیں ہم سن چکے ہیں کوئی نئی بات کریں،
عمران خان نے کہاکہ سر جسٹس طارق صاحب نے تادیبی کارروائی روکی تھی لیکن پولیس نے میرے گھر حملہ کر دیا، پنجاب حکومت کے وکیل کی بات سے کنفرم ہو گیا ہے کہ زمان پارک پر حملہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ سر ایسا کبھی ہوا ہے، میرے گھر 26 گھنٹے حملہ کیا گیا، مجھ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ہمارا نہیں خیال کہ پانچ چھ دن میں کوئی کارروائی ہو گی۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ جو بھی ہو گا، اگر ہوا تو قانون کے مطابق ہو گا۔
اس پر جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ جب آپ یہ کہتے ہیں تو دوسری طرف خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ خان صاحب کی پارٹی کا نام ہی انصاف کی پارٹی ہے۔
سماعت کے بعد لارجر بینچ نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت کے وکیل کے بیان کی روشنی میں کیس کی سماعت تک سائل کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو ہراساں کرنے سے بھی روک دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر جلد سماعت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی درخواست دو مئی کو سماعت کے لیے مقرر ہے اس لیے جلد سماعت کی ضرورت نہیں۔