لاہور ہائیکورٹ کا وفاق کی جانب سے توشہ خانہ ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر اظہار برہمی

شائع April 18, 2023
دو رکنی بینچ نے سماعت مئی کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی—فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ
دو رکنی بینچ نے سماعت مئی کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی—فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے 1947 سے 2001 تک توشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے اگلی سماعت پر ذمہ داران کو تفصیلات سمیت طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس محمد رضا قریشی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سنگل بینچ کے 1990 سے 2023 تک ملنے والے تحائف کے ذرائع بتانے کے فیصلے کے خلاف حکومت کی درخواست پر انٹرا کورٹ سماعت کی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کے پاس 1947 سے 1990 تک توشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

دو رکنی بینچ نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی اور سوالیہ نشان ہے کہ حکومت کے پاس ریاستی اثاثوں کا ریکارڈ نہیں ہے۔

عدالت نے یاد دہانی کروائی کہ یہ پوری قوم کا معاملہ ہے اور حکومت کے پاس تلاش کرنے اور سنگل بینچ کے حکم کے تحت ریکارڈ پیش کرنے کے لیے علاوہ کوئی موقع نہیں ہے۔

ججوں نے توشہ خانہ کے ریکارڈ کی عدم دستیابی پر وضاحت کے لیے ریٹائرڈ افسران سمیت تمام ذمہ داران کو طلب کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا۔

دو رکنی بینچ نے پارلیمنٹ کے حوالے سے کہا کہ بل فوری طور پر منظور ہوتے ہیں لیکن عوام کے مفاد میں کوئی قانون سازی نہیں ہوتی ہے۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ ’ہم اپنی آنے والی نسل کے لیے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں‘۔

بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ بغیر کسی ناکامی کے ریکارڈ پیش کرنا یقینی بنائیں اور سماعت مئی کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 22 مارچ کو جسٹس عاصم حفیظ نے وفاقی حکومت کو 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کا ریکارڈ تحائف دینے والے غیرملکی شخصیات اور ممالک کی تفصیلات کے ساتھ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔

جج نے کہا تھا کہ توشہ خانہ سے متعلق کوئی بھی چیز قوم سے چھپائی نہیں جاسکتی۔

دوسری جانب حکومت کی اپیل میں کہا گیا تھا کہ سنگل بینچ نے رٹ پٹیشن پر پاکستانی شخصیات اور سرکاری عہدیداروں کو بیرونی ریاستوں سے ملنے والے تحائف کی تمام معلومات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا حکم دیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی کابینہ نے توشہ خانہ کا 2002 سے 2023 تک ریکارڈ اس وقت ڈی کلاسیفائی کرنے کا فیصلہ کیا جب معاملہ زیر سماعت تھا لیکن تحائف کے ذرائع کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی تھیں۔

اپیل میں کہا گیا کہ فیصلہ ہوا تھا کہ ذرائع خفیہ رکھے جائیں گے کیونکہ وفاقی حکومت کا ماننا ہے کہ اس سے پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر برے اثرات پڑیں گے۔

ڈویژن بینچ سے استدعا کی گئی کہ سنگل بینچ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024