فوج، سیاسی قیادت انسداد دہشت گردی پالیسی پر نظرثانی کیلئے متفق
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے قومی اسمبلی کے اراکین کو ان کیمرا بریفنگ کے دوران تسلیم کیا ہے کہ دہشت گرد ان کے خلاف بنائی گئی حکمت عملی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قبائلی علاقوں میں دوبارہ متحد ہوئے تاہم اجلاس کے دوران سیاسی اور فوجی قیادت نے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر نظرثانی پر اتفاق کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنرل عاصم منیر نے بظاہر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت میں فوج اور سیاسی قیادت کا اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد منصوبہ اور اس پر عمل درآمد کی جانب اشارہ کیا جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان اپنے پالیسی کا دفاع کرتے ہیں اور افغانستان سے واپس آنے والے انتہاپسندوں کی دوبارہ آبادکاری کے خیال کی حمایت کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے ان کیمرا اجلاس کے دوران گزشتہ حکومت کی پالیسی پر واضح تبدیلی کرتے ہوئے کہا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پہلے تین جہتی منصوبہ روکنا، مذاکرات اور پیش رفت جاری ہے، اس سے قبل قانون سازوں نے دہشت گردوں کے گروپس کے دوبارہ ابھرنے کے حوالے سے انتہائی تشویش کا اظہار کیا۔
فوج نے ملک بھر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے آگاہ کیا اور انتہاپسندی کے خاتمے، اندرونی سلامتی برقرار رکھنے اور بیرونی خطرات سے پاکستان کے دفاع کے حوالے سے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی تفصیلات بھی بتائی گئیں۔
دو گھنٹوں تک جاری رہنے والے ان کیمرا اجلاس میں بریفنگ ملک کے حالیہ سیکیورٹی مسائل اور بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں انسداد دہشت گرد سے متعلق فوج کی کارروائیوں پر مشتمل تھی۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اراکین پارلیمنٹ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے منصوبوں اور ان کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے عزائم سے آگاہ کیا۔
انٹرسروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹرجنرل (ڈی جی) لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے اپنی بریفنگ میں دشمن خفیہ ایجنسیوں کی دہشت گرد گروپس کے ساتھ ملی بھگت سے اراکین کو بتایا۔
ان کیمرا اجلاس میں ڈیڑھ گھنٹے طویل سوال و جواب کا سیشن ہوا۔
ذرائع نے بتایا کہ آرمی چیف نے انسداد دہشت گردی کے منصوبے پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا اور کثیرالجہتی یا ’تھری-ڈی‘ حکمت عملی کی تجویز دے دی۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد قومی اتفاق رائے ہوئی تھی اور انسداد دہشت گردی اور انتہائی پسندی کے خاتمے کے لیے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان (نیپ) پیش کیا گیا تھا اور اس کی منظوری پارلیمنٹ نے دی تھی۔
ڈان کو قومی اسمبلی کے ایک رکن نے بتایا کہ آرمی چیف قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کرنے کے تاثر کی نفی کی اور تجویز دی کہ دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے روکنے، مذاکرات اور پیش رفت پر مبنی منصوبہ ہو۔
آرمی چیف کے مطابق ’تھری ڈی‘ منصوبہ کوئی نئے منصوبہ نہیں ہے کیونکہ یہ ریاست کی پالیسی سے جڑا ہوا ہے، انہوں نے تجویز دی کہ اس حکمت عملی میں سیکیورٹی فورسز، قانونی برادری، سول سوسائٹی، سیاست دارن، سماجی کارکن، بیوروکریسی، سفارت کار اور میڈیا کی طرح تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔
جنرل عاصم منیر نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے پاکستان میں نو گو ایریاز صاف کردیے ہیں اور 80 ہزار اہلکاروں نے اس مقصد کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کے پاس ریاست کی رٹ قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
جنرل عاصم منیر نے سیاست دانوں پر اختلافات ختم کرنے پر زور دیا، رکن اسمبلی کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ ’نئے اور پرانے پاکستان‘ کے لیے کام کرنے کے بجائے سیاست دانوں کو ’ہمارے پاکستان‘ کے لیے متحدہ ہونا چاہیے۔
مشکل سوالات
سول و جواب کے دوران سینئر سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے مسلح افواج کی کوششوں کو سراہا لیکن آرمی چیف کو اراکین خاص طور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی جانب سے چند مشکل سوالوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کے دوبارہ ابھرنے اور سابقہ حکومت کے مذاکرات کے تحت بنائی گئی حکمت عملی پر سوالات کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ متعدد اراکین نے ان افراد کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا جنہوں نے دہشت گرد گروپس کو سہولت دی، اس پر عسکری قیادت نے جواب دیا کہ اس طرح کے عناصر کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو سراہا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے انسداد دہشت گردی کی کوششیں برباد کیں اور اس کے نتیجے میں دہشت گرد ملک میں واپس آئے۔
دوسری جانب جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی علی وزیر نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے قرار دیا کہ وہ علاقے میں اس وقت تک کسی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے جب تک ان حاضر اور ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کو ٹرائل اور سزا نہیں دی جاتی جنہوں نے ان دہشت گردوں کو مذکورہ علاقوں میں دوبارہ بسانے میں مدد کی تھی۔
علی وزیر نے کہا کہ انہوں نے یہ معاملہ وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے بھی اٹھایا تھا جب سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر انہیں کراچی سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے لیے لایا گیا تھا جہاں انہیں اسٹیبلشمنت مخالف تقریر پر طویل عرصے تک سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا تھا۔
رکن قومی اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ بسانے کے لیے افغانستان میں ان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر نہ صرف عوام اور پارلیمان بلکہ جی ایچ کیو کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔