پی پی پی کا پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے ماحول سازگار بنانے کیلئے پینل کا اعلان
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ’غیرمشروط‘ مذاکرات شروع کرنے کی تجویز کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کی قیادت میں اپوزیشن جماعت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے حکومت میں شامل اتحادیوں سے مشاورت کے لیے تین رکنی پینل کا اعلان کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی پی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سینیٹر یوسف رضا گیلانی، وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر اور وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ تمام جماعتوں سے مذاکرات کے لیے حکومت میں شامل اتحادیوں سے بات کریں گے۔
پی پی پی کے تینوں رہنماؤں کا بنیادی ہدف موجودہ بحران کے خاتمے کے لیے انتخابات سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کو قائل کرنا ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے پی پی پی رہنما قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پی پی پی کو بنیادی طور پر سیاسی عناصر کے درمیان ’ڈیڈلاک‘ پر تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہم اپنے اتحادیوں سے بات کریں گے اور انہیں حزب اختلاف سے بات کرنے کے لیے قائل کریں گے، جب ہم کامیاب ہوئے تو پھر ہم پی ٹی آئی سے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش پر بات کریں گے۔
ان سے سوال کیا گیا کہ اگر مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنے پر ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو کیا ہوگا، جس پر قمرزمان کائرہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پہلے ہی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو میثاق معیشت پر دستخب کرنے کی پیش کش کی تھی اور اس پیش کش پر عمران خان کے جواب پر ہی مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے سخت لہجہ اپنایا تھا۔
قمرزمان کائرہ نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن کو ٹیبل پر لانے کے لیے کسی کردار سے متعلق سوال پر کہا کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی نوازشیں حاصل نہیں ہیں لیکن ہر سمجھدار آدمی حکومت اپوزیشن کے درمیان مذاکرات چاہے گا تاکہ موجودہ بحران کا اختتام ہو۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں انتخابات کرانا نہیں چاہتی ہے اور اسی لیے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔
ڈان کو جنوبی پنجاب سے پی پی پی کے رہنما حیدر زمان نے بتایا کہ جماعت سمجھتی ہے کہ اگر اختیار دیا گیا تو وہ تمام عناصر کو مذاکرات کے لیے قائل کرنے میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں اور انتخابات اور معیشت سے متعلق مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
حالیہ پیش رفت میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے ’سخت مؤقف‘ میں نرمی دکھائی ہے، جن کو وہ ’چور‘ کہتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ وہ انتخابات کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم کے مثبت اشارے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قرار دیا تھا کہ ان کی جماعت اکتوبر 2023 میں ایک ساتھ انتخابات کے لیے ایک مرتبہ ترمیم کرنے کے لیے تیار ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات سے قبل عمران خان کی نااہلی اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کی واپسی اور اس سے کم کوئی چیز ہمیں قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے دروازے کھلے ہوں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کے ساتھ مذاکرات کا مطلب ہے انتخابات کے لیے اس کا مطالبہ مان لیا جائے، حتیٰ کہ موجودہ منصوبے کے تحت ہمیں اکتوبر میں بھی انتخابات سازگار نہیں ہوں گے، اس لیے پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرے‘۔
وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا کہ ’اگر ہمارے قائد نواز شریف کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی تو ہم انتخابات میں کیسے جاسکتے ہیں، انتخابات کے لیے برابری کا ماحول ہونا چاہیے اور انہیں انتخابات سے قبل آنے دیا جائے‘۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ نواز شریف اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے ساتھ نہ بیٹھنے کا ’انتہائی سخت مؤقف‘ اپنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’فوج اور بیوروکریسی سپریم کورٹ کے فیصلے کی نفی نہیں کرسکتی ہے، وزیراعظم شہباز شریف کو حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے پنجاب میں اگلے ماہ انتخابات کے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر انہیں بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے‘۔