• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

اگر افغانستان، پاکستان مخالف دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہا تو کارروائی کریں گے، وزیر دفاع

شائع April 13, 2023
وزیر دفاع کا وائس آف امریکا کو انٹرویو—فوٹو: اسکرین گریب
وزیر دفاع کا وائس آف امریکا کو انٹرویو—فوٹو: اسکرین گریب

وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کو خبردار کیا ہے کہ ’اگر افغانستان عسکریت پسندوں کو لگام دینے میں ناکام رہا تو پھر پاکستان ملک کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرے گا‘۔

گزشتہ روز امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ کو خصوصی انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ فروری میں دورہ افغانستان پر انہوں نے افغان حکام کو یاد دہائی کرائی تھی کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے یا ان کا منصوبہ کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کرنے والے دہشت گردوں کو روکنے کے پیش نظر سرحد پار سیکیورٹی عزائم پر قائم رہیں یا پھر پاکستان کارروائی کرے گا۔

خواجہ آصف نے اپنی اس بات کی تائید کی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان میں دہشت گردی کے حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کر رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ’گزشتہ دورے پر ہم نے کابل کو یہ پیغام پہنچایا تھا کہ، مہربانی کریں، ہمارے پڑوسی اور بھائی ہونے کے ناطے، جو کچھ بھی افغان سرزمین سے ہو رہا ہے وہ آپ کی ذمہ داری ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر ایسا نہیں ہوتا تو کچھ مقامات پر ہمیں کچھ اقدامات کرنے ہوں گے، جو یقینی طور پر افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہوں گی جہاں ہمیں انہیں نشانہ بنانا پڑے گا، ہمیں انہیں اس لیے نشانہ بنانا ہوگا کیونکہ ہم زیادہ دیر تک ایسی صورتحال کو برداشت نہیں کر سکتے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ افغانوں حکام نے اس پر بہت ہی اچھا ردعمل دیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان نے بہت اچھا جواب دیا، شاید ان کے لیے تحریک طالبان پاکستان کو اس مرحلے سے منقطع کرنے میں وقت لگے گا جو کہ وہ یقیناً منقطع کرنا چاہتے ہیں اور یہ میرا تاثر ہے کہ وہ منقطع کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کشمکش میں ہیں۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ’لیکن وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہم ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور ہم ایسی صورتحال پر نہیں جانا چاہتے جہاں ٹی ٹی پی کے ساتھ معاملات کشیدہ ہوں اور ہم ایسا کچھ کریں جو کابل میں ہمارے پڑوسیوں اور بھائیوں کو پسند نہ ہو۔

انٹرویوں کے دروان جب خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کیا ان کو افغان طالبان کی اس بات پر اعتماد ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے ٹی ٹی پی افغان سرزمین کا استعمال نہیں کر رہی۔

خواجہ آصف نے اس سوال پر جواب دیا کہ ’ٹی ٹی پی ابھی بھی افغان سرزمین سے کام کر رہی ہے۔‘

خواجہ آصف سے ان کے اس دعوے کے بارے میں بھی پوچھا گیا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے ہتھیار استعمال کر رہی ہے تو کیا انہوں نے امریکہ کو اس کا کوئی ثبوت فراہم کیا ہے۔

اس پر وزیر دفاع نے جواب دیا کہ ’یہ ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے، کابل کی سڑکوں پر میں نے خود ایسا دیکھا تھا، مزید کہا کہ ٹی ٹی پی ہلکے ہتھیار، حملہ کرنے والی رائفلز، گولہ بارود، نائٹ ویژن چشمیں اور سنائپر رائفلزکا استعمال کر رہی ہے جو کہ امریکی فوجیوں نے چھوڑے تھے۔

خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کیا یہ معاملہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ اٹھایا ہے جس پر انہوں نے کہا کہ امریکہ سے بات کرنے کا کیا فائدہ، وہ غیرملکی زمین پر اسلحہ کا کچھ سامان اس لیے چھوڑ گئے کیونکہ وہ اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے۔

انٹرویو لینے والے نے نشاندہی کی کہ پاکستان کے اس دعوے پر امریکی محکمہ خارجہ کا ردعمل یہ تھا کہ ان کے پاس ’آزادانہ تشخیص‘نہیں ہے اور کیا اسلام آباد کو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد کی ضرورت ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ مجھے اس میں کوئی منطق نظر نہیں آتا اور آپریشن ضرب عضب اور ردلفساد کی مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہم اس لعنت سے خود نمٹ سکتے ہیں۔

انہوں نے ملک میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کو سابقہ حکومت کی ’سنگین غلطی‘ قرار دیا۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کے فلور پر اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ کل (جمعہ) کو ملکی سلامتی کی صورتحال پر ایوان کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ موجودہ صورتحال سے آگاہ ہے، عسکری قیادت عسکریت پسندی کے خلاف ریاست کی پالیسی کے بارے میں پارلیمنٹ کو بریف کرے گی۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ نے متعلقہ باتیں کی ہیں لیکن میں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ یہ مسئلہ تقریباً تین دہائیوں کا ہے جو ہماری ریاست کی تمام تر غلط پالیسیوں کی بنیاد آمرانہ دور میں رکھی گئیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پہلی افغان جنگ جنرل ضیا کے دور میں ہوئی جبکہ دوسری جنگ 9/11 کے بعد جنرل (ر) مشرف نے شروع کی اور یہ سارا ملبہ اس وقت کا اکٹھا ہوا پڑا ہے۔

انہوں نے محسن داوڑ اور علی وزیر کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بات سو فیصد درست ہے اور ان علاقوں میں جو لوگ عذاب میں ہیں وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں، ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں تھا، ریاست کی پالیسی تھی جس کے فیصلے اسلام آباد میں ہوئے ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ جنرل ضیا کا بھی فرد واحد کا فیصلہ تھا جبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا بھی فرد واحد کا فیصلہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ فوج، پولیس، رینجرز اور ایف سی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں عام شہری شہید ہوئے ہیں تو ان کا حساب کون دے گا، یہ (ارکان) صحی حساب مانگ رہے ہیں اور اب جو المیہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں سے لوگوں کو لاکر یہاں بسایا گیا ہے جن کو دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں آتا کیونکہ انہوں نے آنکھیں ہی دہشت گردی میں کھولی ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جب سے وہ لوگ یہاں آئے ہیں پاکستان میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے، ان ذمہ دار افراد کا احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کو یہاں لانا ہے اور ان لوگوں کو امن والی آبادی میں بسایا گیا جس کی وجہ سے امن تباہ ہوگیا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ان لوگوں میں سے کچھ کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہے اور کچھ لوگ زمان پارک میں بیٹھے ہوئے ہیں تو یہ لوگ صرف کچے میں نہیں بلکہ زمان پارک میں بھی موجود ہیں جو عمران خان کی بھی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024