• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

عدالت عظمیٰ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ پر تا حکم ثانی عملدرآمد روک دیا

مقدمے کی سماعت 8 رکنی لارجر بینچ کرے گا— فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
مقدمے کی سماعت 8 رکنی لارجر بینچ کرے گا— فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ میں ہونے والی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر آج کی سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔

حکم نامہ 8 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کےلیے مقرر کی گئیں۔

مجوزہ قانون کا مقصد چیف جسٹس کو انفرادی حیثیت میں از خود نوٹس لینے کے اختیارات سے محروم کرنا ہے۔

اسے ابتدائی طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کیا گیا اور صدر کی منظوری کے لیے بھیجا گیا، تاہم صدر مملکت نے یہ کہتے ہوئے اسے واپس بھیج دیا کہ مجوزہ قانون ’پارلیمنٹ کے اختیارات سے باہر‘ ہے۔

پیر کے روز پی ٹی آئی قانون سازوں کے شور شرابے اور احتجاج کے دوران بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بعض ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا۔

آئین کے مطابق بل کو ایک بار پھر صدر مملکت کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا اور اگر وہ 10 روز کے اندر اس پر دستخط نہیں کرتے ہیں تو بھی یہ منظور ہوجائے گا۔

تاہم سپریم کورٹ نے اپنے اس حکم سے اس قانون پر عمل درآمد روک دیا ہے جو بعد میں نافذ العمل ہوگا۔

سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تا حکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کے لیے متفکر ہے۔

حکم نامہ کے مطابق اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے عدالت کی مداخلت درکار ہے، تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلا کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ جس کے پاس قانون ریگولیٹ کرنے کی طاقت ہو وہ اس کو تباہ کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے، موجودہ کیس میں عدلیہ کی آزادی کی تباہی کا خدشہ ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کیا مقننہ کے پاس سپریم کورٹ کے قوانین میں رد و بدل کا اختیار ہے؟ واضح ہونا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 191 میں اختیارات میں رد و بدل کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟

تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ عدالت کی پریکٹس اور پروسیجر میں رد و بدل خواہ کتنا ہی ضروری ہو، عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرتا ہے، مجوزہ بل یا ایکٹ کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے، عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے وکیل نے اہم قانونی نکات اٹھائے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق بھی نکتہ اٹھایا گیا۔

عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ، بل کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی .تحریک انصاف، ق لیگ، حکومتی اتحادی جماعتوں، اٹارنی جنرل، پاکستان بار، سپریم کورٹ بار اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے، کیس کی مزید سماعت 2 مئی کو ہوگی۔

’چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بل خلاف آئین تو نہیں‘؟

قبل ازیں سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ 8 رکنی لارجر بینچ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر سماعت کی تھی۔

8 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار راجا عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے، قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے، قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔

امتیاز صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں، عدالت کو انتخابات نہ کروانے ہر از خود نوٹس لینا پڑا، عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا، 3 اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا، آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے، عدالت اور ججز ہر ذاتی تنقید کی گئی، وزرا اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا، صدر مملکت نے اعتراضات عائد کر کے بل اسمبلی کو واپس بھیجا، سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا، مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد 10 روز میں بل قانون بن جائے گا، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔

ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے، بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں، بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے، بل زیر التوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے، صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں، چیف جسٹس کی تعیناتی سے ہی سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے، چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔

ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے، چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال نہیں کر سکتا، چیف جسٹس کا دفتر 2 سینیئر ججز کے ساتھ کیسے شئیر کیا جاسکتا ہے، عدلیہ کی آزادی پر سپریم کورٹ کئی فیصلے دے چکی ہے، ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ قاسم سوری کیس میں قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے، ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ بل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا، بل پاس ہوجائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی، عدالتی فیصلے کے مطابق صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے کے لیے بااختیار ہے، تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں، سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی، آپ کے مطابق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے، آپ کے مطابق پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔

امتیاز صدیقی نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صدر ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے، صدر کا عہدہ صرف رسمی نوعیت نہیں ہے، صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی، اسمبلی منظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہوسکتی، بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے، عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التوا قانون سازی میں مداخلت نہیں ہوگا، پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی اس لیے یہ مداخلت تصور نہیں ہوگی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ حسبہ بل ریفرنس کی صورت میں آیا تھا، حسبہ بل میں گورنر کو بل پر دستخط سے روکا گیا تھا۔

امتیاز صدیقی نے استدعا کی کہ وزارت قانون کو فیصلے تک مجوزہ ایکٹ بطور قانون نوٹیفائی کرنے سے روکا جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کو جلد دوبارہ مقرر کیا جائے گا، جائزہ لینا ہے کہ اس معاملہ میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی، ججز کی دستیابی کو مد نظر رکھ کر جلد سماعت کے لیے مقرر کریں گے۔

امتیاز صدیقی نے استفسار کیا کہ کوئی مقدمہ 10 رکنی بینچ سنے تو اپیل کیسے دائر ہوسکتی ہے؟ کیا سینیئر ججز کے فیصلے کے خلاف جوئنیر ججز اپیل سن سکتے ہیں؟، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام ججز برابر ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟

امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر غیر آئینی قرار دیا جائے، موجودہ کیس میں بل کی منظوری سے پہلے سے مراحل کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم پارلیمنٹ کی عزت کرتے ہیں، عدلیہ کی آزادی اہم معاملہ ہے، ممکن ہے کہ اس درخواست پر عدالتی معاون مقرر کریں، ہم آ ج کی سماعت کا آرڈر بعد میں جاری کریں گے، آئندہ ہفتے 4 ورکنگ ڈیز ہیں، ججز کے ساتھ مشاورت کروں گا کہ آئندہ سماعت کب ہوگی۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو نوٹس جاری کریں گے، وفاقی حکومت، اٹارنی جنرل اور سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کریں گے۔

بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل، سیاسی جماعتوں اور فریقین سمیت پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کرنے کے ہدایت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

حکمراں اتحاد نے سپریم کورٹ پروسیجر بل پر عدالت عظمیٰ کا ’متنازع بینچ‘ مسترد کردیا

دریں اثنا حکمراں اتحاد نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق ’سپریم کورٹ پروسیجر بل‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے لیے عدالت عظمیٰ کا تشکیل کردہ 8 رکنی بینچ متنازع قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف درخواستیں آج سماعت کے لیے مقرر کی ہیں جس کے لیے گزشتہ روز 8 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

تاہم حکومتی اتحاد نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 کے حوالے سے قانون سازی کا عمل مکمل ہونے اور اس کے نفاذ سے پہلے ہی متنازع بینچ تشکیل دے کر سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اقدام مسترد کردیا۔

حکمران جماعتوں کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اس نوعیت کا اقدام پاکستان اور عدالت کی تاریخ میں اس سے قبل پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، یہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی ساکھ ختم کرنے اور انصاف کے آئینی عمل کو بے معنی کرنے کے مترادف ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ بینچ بذات خود سپریم کورٹ کی تقسیم کا منہ بولتا ثبوت ہے جس سے حکومت میں شامل جماعتوں کے پہلے بیان کردہ مؤقف کی ایک بار پھر تائید ہوئی ہے، خود سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان اپنے فیصلوں میں ’ون میں شو‘، متعصبانہ و آمرانہ طرز عمل اور مخصوص بینچوں کی تشکیل پر اعتراضات کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔

مشترکہ اعلامیے کے مطابق 8 رکنی متنازع بینچ کی تشکیل سے عدالت عظمیٰ کے ان معزز جج صاحبان کے فیصلوں میں بیان کردہ حقائق مزید واضح ہو کر سامنے آ چکے ہیں۔

بیان میں کہاگیا کہ پاکستان ایک وفاق ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے دونوں چھوٹے صوبوں یعنی بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے کوئی جج بینچ میں شامل نہ کرنا بھی افسوسناک ہے۔

بیان میں کہاگیا کہ حکمران جماعتیں اس اقدام کو پارلیمان اوراس کے اختیار پر شب خون قرار دیتی ہیں جس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی، انتہائی عجلت میں متنازع بینچ کی تشکیل اور اس بل کو سماعت کے لیے مقرر کرنے سے ہی نیت اور ارادے کے علاوہ آنے والے فیصلے کا بھی واضح اظہار ہوجاتا ہے جو افسوسناک اور عدل وانصاف کے قتل کے مترادف ہے۔

بیان میں واضح کیاگیا کہ عدالت عظمیٰ کے اقدام اور متنازع بینچ کی تشکیل پر پاکستان کی بارکونسلز کا بیان اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ یہ اقدام نہ صرف عدل وانصاف کے منافی ہے بلکہ مروجہ عدالتی طریقہ کار اور متعین اصولوں کے بھی صریحاً برعکس ہے۔

مشترکہ بیان میں واضح کیاگیا کہ 12 اکتوبر2019کو لاہور میں آل پاکستان وکلا کنونشن نے قرارداد منظور کرکے پارلیمان سے مطالبہ کیاتھا کہ یہ قانون منظور کیاجائے، ملک بھر کی وکلا برادری کے اس مطالبے پر عمل کرتے ہوئے پارلیمان نے متعلقہ قانون منظور کیا۔

بیان میں واضح کیاگیا کہ پارلیمان کا اختیار چھیننے اور اس کے دستوری دائرہ کار میں مداخلت کی ہر کوشش کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی، آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمان کے اختیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ ہوا تو بطور ادارہ اس کا وجود ختم ہو جائے گا، فواد چوہدری

دوسری جانب رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ ہوا تو بطور ادارہ اس کا وجود ختم ہو جائے گا۔

لاہور میں فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں آج اور کل تاریخی مقدمات کی سماعت ہے، چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے لیے قانون سازی کی گئی جس پر سپریم کورٹ کا اکثریتی بینچ سماعت کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سپریم کورٹ پر حملوں کی تاریخ پرانی ہے، انہوں نے بار کونسل میں اپنے گماشتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن پورے پاکستان کے وکیلوں نے ہڑتال کی کال کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ الیکشن 14 مئی کو ہونے ہیں، اگر سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ ہوا تو سپریم کورٹ بطور ادارہ ختم ہوجائے گا، ہم پی ڈی ایم جماعتوں کا عدالتوں کے خلاف پروپگینڈہ مسترد کرتے ہیں۔

بار کونسل کا ہڑتال کا اعلان

پاکستان بار کونسل نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل‘ کی سماعت کے موقع پر آج ملک بھر میں عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین ہارون الرشید اور چئیرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضاپاشا نے صوبائی بار کونسلوں کے منتخب سربراہان سے باہمی مشاورت کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 سے متعلق قانون نافذالعمل ہونے سے قبل ہی یک طرفہ اور متنازع بینچ کی تشکیل اور مقدمہ کو عجلت میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کے اقدام کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

ہارون الرشید ایڈوکیٹ اور حسن رضا پاشا کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ’کے خلاف آئینی درخواستوں کوعجلت میں مقرر کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ وکلا راہنماؤں نے متفقہ طور پر اس اقدام کو ملک کی اعلی ترین عدالت کو تقسیم کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اتفاق کیا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کبھی بھی پارلیمان کی طرف سے بنائے گئے کسی قانون کو نافذالعمل ہونے سے نہیں روکا گیا

بیان میں وکلا راہنماؤں نے خبردار کیا کہ ملک بھر کی بارکونسلز اور ایسوسی ایشنز کے مطالبے پر کی گئی اس قانون سازی کو نافذالعمل ہونے سے پہلے روکنے کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔

پاکستان بار کونسل کے مطابق باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس غیرمنصفانہ اقدام کے خلاف ملک بھر کے وکلا بطور احتجاج 13 اپریل کو (آج) عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے، مزید برآں پاکستان بار کونسل کے ملک بھر کے منتخب نمائندہ راہنماﺅں کا اجلاس 17اپریل 2023 کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔

بیان میں وکلا راہنماؤں نے واضح کیا کہ پارلیمان نے یہ قانون سازی مورخہ 12 اکتوبر2019کو لاہور میں منعقدہ آل پاکستان وکلا کنونشن کی منظور کردہ قرارداد کے عین مطابق کی ہے جسے نافذالعمل ہونے سے روکنے کی ہر کوشش کی وکلا برادری بھرپورمزاحمت کرے گی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کے خلاف دائر درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف دائر درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظور ترامیمی ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

عدالت عظمیٰ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں ہیں، 2 درخواستیں وکلا اور 2 درخواستیں شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں۔

درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنے تھے، آرٹیکل 183/3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی حق نہیں دیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بل کے خلاف دائر درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ 28 مارچ کو وفاقی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی، جس کے بعد 29 مارچ کو قومی اسمبلی سے متعدد ترامیم کے بعد منظور کرلیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے وقت حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی تھی تاہم چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔

بعد ازاں 30 مارچ کو سینیٹ سے بھی اکثریت رائے سے منظور ہوا تھا۔

سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے تھے جبکہ بل کی شق وار منظوری کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت اپوزیشن ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑی اور احتجاج کیا اور شور شرابا کیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد 30 مارچ کو باقاعدہ توثیق کے لیے صدر مملکت کو ارسال کردیا تھا۔

دوسری جانب صدر مملکت نے 8 اپریل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا اور کہا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے کہا تھا کہ مذکورہ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لہٰذا بل کی درستی کے بارے میں جانچ پڑتال کے لیے دوبارہ غور کرنا چاہیے، اس لیے واپس کرنا مناسب ہے۔

صدر مملکت کی جانب سے مذکورہ بل واپس بھیجے جانے کے بعد 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسے دوبارہ منظور کرلیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024