کالعدم ٹی ٹی پی اب بھی پاکستان میں حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کررہی ہے، خواجہ آصف
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) آج بھی پاکستان پر بالخصوص خیبر پختونخوا میں حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے یہ بات امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کی اردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ اسلام آباد کے افغان طالبان قیادت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان پر حملوں میں اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال کے اختتام پر پاکستانی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کے بعد سے عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی نے 28 نومبر کو باضابطہ طور پر جنگ بندی ختم کی اور اس کے بعد 100 سے زیادہ حملے کیے ہیں، ان میں سے بہت سے حملوں کی منصوبہ بندی اور ہدایات افغانستان میں موجود کالعدم تنظیم کی قیادت نے دی تھی۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ ایک ماہ قبل انٹرسروسز انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی آئی ایس آئی) کے ہمراہ افغانستان کے دورے کے دوران یہ معاملہ زیربحث آیا تھا اور افغان طالبان نے اس سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی 20 برسوں تک نیٹو افواج کے خلاف مل کر لڑتے رہے اس لیے ان کے درمیان ایک ’کامریڈی‘ موجود ہے لیکن بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو پاکستان میں لاکر دوبارہ آباد کرنا عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمت عملی تھی جس کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل تھی لیکن یہ کوشش ناکام ہو چکی ہے۔
’طالبان کی واپسی خلاف عوام خود احتجاج کررہے ہیں‘
خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع اور دیگر مقامات پر شہریوں کے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف احتجاج کے حوالے سے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ عوام نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر رہنے سے صاف انکار کردیا ہے اور اچھی بات ہے کہ یہ احتجاج مسلح نہیں ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا کے عوام کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ’ اکٹھا رہنے’ کو تیار نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے منسلک سرحدی پٹی سے منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی بھی اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ احتجاج مسلح نہیں ہے اور کہا کہ بڑی قابل ذکر بات ہے کہ ’طالبان کی واپسی کے خلاف لوگ غیر مسلح احتجاج کر رہے ہیں، یہ لوگ ماضی میں بھی طالبان کے ڈسے ہوئے ہیں، پی ٹی ایم کی قیادت کو دیکھ لیں، ان کے عزیز و اقارب کالعدم ٹی ٹی پی کے ہاتھوں مارے گئے‘۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ لوگوں نے خود احتجاج کیا، ماضی میں انہوں نے احتجاج نہیں کیا تھا لیکن اب انہوں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ایک پرامن شہری کی حیثیت سے گزشتہ 8-10 سال میں جو زندگی گزار چکے ہیںِ اس کو دیکھتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے، اس لیے انہوں نے بہت مؤثر انداز میں آواز اٹھائی ہے‘۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ چونکہ میڈیا کی توجہ کا مرکز پاکستان کے سیاسی حالات بنے ہوئے ہیں اس لیے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کو ذرائع ابلاغ میں زیادہ کوریج نہ مل سکی۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ کسی نہ کسی حد تک (اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی) یہ بات درست ہے کہ افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں کوئی فرق نہیں لیکن افغان رہنماؤں سے بات کر کے یہ تاثر ملا کہ وہ ان سے فاصلہ ضرور اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
’قومی ڈائیلاگ ہوں تو سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے نکل سکتی ہیں‘
ملک کی سیاسی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ’عمران خان فوج پر الزام عائد کر رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ امریکا اور فوج سے متعلق عمران خان اس وقت کہاں پر کھڑے ہیں لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران ان کا مؤقف بدلتا رہا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ (ان کے الزامات) امریکا سے شروع ہو کر آئی جی پنجاب تک پہنچ گئے کہ وہ ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں، عمران خان کے حالیہ بیانات سے سمجھ نہیں آتی کہ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومت کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں یا نہیں چاہتے، ان کا کوئی واضح مؤقف نہیں ہے۔’
رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ عمران خان آج بھی اپنی رشتہ داری ہمارے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قائم کرنا چاہیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے (اثرورسوخ سے) سے نکل سکتی ہیں، اگر اسد قیصر اور دیگر لوگ جو مذاکرات کی بات کرتے ہیں وہ قومی ڈائیلاگ ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ بھی بیٹھے، میڈیا کی بھی نمائندگی ہو، سول سوسائٹی کے لوگ بھی ہوں اسی وقت قومی مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، نیا سماجی معاہدہ ہونا چاہیے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہونا چاہیے جس میں پاور اسٹرکچر کے لوگ موجود ہوں’۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ عدلیہ بھی جارح ہے، میڈیا بھی کبھی بے لگام، کبھی بالگام ہو جاتا ہے، اسی طرح بڑے کاروباری اداروں کا بھی ایک کردار ہے، چنانچہ سیاستدان اکیلے مذاکرات کر بھی لیں تو وہ قومی زندگی میں بنیادی تبدیلی نہیں لا سکتے’۔