جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیو ریٹیو ریویو واپس لینے کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں ہوئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد پیش ہوئے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو واپس لینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جس کا تحریری حکمنامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج چیف جسٹس کے چیمبر میں کیوریٹو ریویو اپیلوں پر سماعت ہوئی، حکومت نے رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف بھی اپیلیں فائل کی تھیں، ہم نے اپنے دلائل دیے جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالت کو بتایا کہ آئین میں دوسری بار نظرثانی داخل کرنے کی اجازت نہیں، انڈیا میں ایک دفعہ دوسری بار نظرثانی کی اپیل داخل کرنے کے لیے انڈین سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم کی گئی، انڈیا میں کیوریٹور ریویو کی ایک شق موجود ہے، وہاں ایک فیصلہ جوڈیشل ججمنٹ میں آیا تھا، ہمارے پاس انتظامی سطح پر رجسٹرار کے فیصلے پر اعتراض تھا، اس پر ایک ریمیڈی ہے جو اپیل کی ہے جس کا ہم نے فائدہ اٹھایا۔
صحافی کی جانب سے اٹارنی جنرل سے سوال کیا گیا کہ کیا چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس داخل کیا جاسکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ ’اس کا کوئی جواب نہیں دوں گا‘۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر نظر ثانی درخواستیں 26 اپریل 2021 کو خارج ہوگئی تھیں لیکن پی ٹی آئی نے مذکورہ درخواستیں خارج ہونے کے خلاف کیوریٹیو ریویو دائر کیا تھا تاہم موجودہ حکومت نے وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد کیوریٹیو ریویو واپس لینے کی درخواست دائر کردی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 23 جون 2022 کو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک بیان دیا تھا جس میں کیوریٹو نظرثانی درخواست کو واپس لینے کا مشورہ دیا گیا تھا جو ان کے پیشرو ڈاکٹر فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے استدعا کی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں اس کے 26 اپریل 2021 کے اکثریتی فیصلے کو’صاف اور صریح طور پر غیر منصفانہ، مفاد عامہ اور عوامی بھلائی کے خلاف ہونے کی وجہ سے میدان میں نہیں چھوڑا جانا چاہیے ’۔
26 اپریل 2021 کو عدالت عظمیٰ نے 6-4 کی اکثریت سے 19 جون 2022 کے اپنے اس اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں عدالت نے ٹیکس حکام کو جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر تین غیر ملکی جائیدادوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
کیوریٹو اپیل صدر ڈاکٹر عارف علوی، سیکریٹری قانون کے توسط سے سابق وفاقی حکومت، سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر وغیرہ کے جانب سے دائر کی گئی تھی۔
کیوریٹیو ریویو میں دلیل دی تھی کہ 26 اپریل کے اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے دروازے عام طور پر بند کر دیے ہیں اور ساتھ ہی ریکارڈ پر آنے والے الزامات اور معلومات کے حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ کے احتساب کے دروازے بھی بند کر دیے۔
اپیل میں کہا گیا تھا کہ اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے معیار کو بھی کمزور کر دیا تھا بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو عدالتی آزادی کے نظریے کے پیچھے چھپنے کے لیے ڈھال فراہم کی گئی ہے تاکہ عدالتی احتساب سے بچ سکیں۔
اپیل کے مطابق اکثریتی فیصلہ اس بات پر زور دینے میں بھی ناکام رہا کہ حکام، ججوں، قاضیوں اور سرکاری ملازمین کا فرض ہے کہ وہ اپنے مالیات اور اثاثوں کی وضاحت کریں، جس کی ابتدا ہمارے مذہب اور شاندار ورثے کی مرہون منت ہے۔
اپیل میں زور دیا گیا تھا کہ سرکاری ملازمین، اہلکاروں، ججوں، قاضیوں وغیرہ کے قریبی رشتہ داروں جیسے ان کی شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کے مالی معاملات کی بھی وضاحت ضروری ہے۔
مزید برآں اپیل کے مطابق اکثریتی فیصلے نے آرٹیکل 209 اور 211 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مبینہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار کو غصب کیا تھا اس لیے یہ واضح طور پر غیر آئینی ہے اور اس پر نظرثانی کی جا سکتی ہے کیونکہ آئین کے تحت یہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کلیئر کر سکتی تھی۔
رواں برس 30 مارچ کو وزیراعظم شہباز شریف نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینےکاحکم دے دیا تھا۔
31 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سول ریویو پیٹیشن میں سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف کیوریٹیو ریویو پٹیشن اور سی ایم اے واپس لینے کی منظوری دے دی تھی۔