• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

عمران خان کی 8 مقدمات میں عبوری ضمانت میں 18 اپریل تک توسیع

شائع April 6, 2023
ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سیکیورٹی صوبائی معاملہ ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سیکیورٹی صوبائی معاملہ ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پتھراؤ، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ سمیت 8 مقدمات میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی عبوری ضمانت میں 18 اپریل تک توسیع کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے عمران خان کی 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی جہاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت بیرسٹر سلمان صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کرائی ہے، آج وکلا نے تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف کو مدعو کر رکھا ہے، شہباز شریف آج اسلام آباد ہائی کورٹ آ رہے ہیں اور سیکیورٹی وہاں ضروری ہے، موجودہ وزیراعظم آ رہے ہیں تو سابقہ نہیں آ سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہتے ہیں، ہماری استدعا ہے کہ عید کے بعد تک کا وقت دے دیا جائے، عمران خان عید کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیں گے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی ایسا ریلیف نہیں دے سکتے جو کسی اور کو نہ دیا جا سکے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ حتمی طور پر تو ہم نے ٹرائل کورٹ ہی جانا ہے، عید کے بعد دوسرے یا تیسرے ورکنگ ڈے تک ریلیف دے دیں، اتنے کیسز ہیں اور تفتیش بھی جوائن کرنی ہے، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ماتحت عدالتوں میں بھی ڈیکورم برقرار رکھنا چاہیے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ابھی تک جے آئی ٹی نے تفتیش کے لیے بھی نہیں بلایا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو 15 رمضان ہے اور عید میں آدھا مہینہ ہے، ضمانت قبل از گرفتاری میں دو ہفتے کی ڈیٹ کیسے دیں؟

اس دوران ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون روسٹرم پر آئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی تھریٹ تو ان کو زندگی بھر رہیں گی، کروڑوں روپے سیکیورٹی پر خرچ آتا ہے، یہ ایک بار بتا دیں کہ کس تاریخ کو پیش ہوں گے۔

بیرسڑ سلمان صفدر نے کہا کہ معاشی بحران چل رہا ہے، سکیورٹی پر بے پناہ خرچ آتا ہے، تفتیش جوائن کرنا انا کا مسئلہ نہیں ہے، عام حالات میں تھانے جا کر تفتیش میں شامل ہوتے ہیں، ہم نے کہا ہے کہ سوالنامہ دے دیں، ہم جواب دے دیتے ہیں، یہ بھی آپشن دیا کہ الزامات کے جواب میں تحریری بیان جمع کرا دیتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانونی طور پر فیصلے کے دن درخواست گزار کا عدالت کے سامنے ہونا ضروری ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے محفوظ جگہ یہی ہے اس لیے ہم اس عدالت آئے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹس میں بھی اس قسم کے سیکیورٹی انتظامات ہو سکتے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ صرف بیان نہیں دینا بلکہ عمران خان کو خود پیش ہونا ہو گا، اگر آئندہ سماعت پر بھی عمران خان نہیں آتے تو کیا ہو گا؟

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ضمانت کے لیے پٹیشنر کا خود پیش ہونا ضروری ہے، اگر نہیں آتے تو قانون کے مطابق کارروائی ہو گی، ہم پہلے سے آرڈر میں کچھ لکھ کر ہاتھ نہیں باندھنا چاہتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسیسمنٹ کمیٹی تھریٹ کا جائزہ لے کر سیکیورٹی بڑھاتی ہے؟ آئی جی اسلام آباد نے مجھے بلٹ پروف گاڑی آفر کی تھی مگر میں نے منع کر دیا، اگر استحقاق 4 پولیس اہلکاروں کا ہو تو کیا تھریٹ ملنے پر سیکورٹی بڑھا دی جاتی ہے؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آپ نے عمران خان کے لیے فُول پروف سیکیورٹی کا نوٹی فکیشن دکھایا ہے لیکن آپ نے عمران خان کو بطور سابق وزیراعظم سیکیورٹی نہیں دی، اِس کو سیکیورٹی واپس لینا ہی تصور کیا جائے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ک آئی جی کے پاس اختیار ہے کہ وہ سیکیورٹی میں اضافہ کر سکتے ہیں، عمران خان کو چاہیے کہ آنے سے قبل آگاہ کریں کہ کب یہاں آ رہے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ایک سابق وزیر اعظم ہیں جنہیں گولی بھی لگ چکی ہے، یہ معاملہ حکومت کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہونا چاہیے تھا، اب اگر ان کی سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی تو انگلیاں آپ کی طرف جائیں گی، اُن کو سکیورٹی دیں تو ہی آپ کے سر سے یہ بات ٹلے گی، عمران خان پر ابھی صرف الزامات ہیں، الزام تک تو بندہ معصوم تصور ہوتا ہے۔

بعدازاں عدالت نے عمران خان کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی 8 مقدمات میں عبوری ضمانت میں 18 اپریل تک توسیع کردی۔

واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی 7 مقدمات میں 6 اپریل (آج) تک عبوری ضمانت منظور کرلی تھی۔

عمران خان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت تھانہ رمنا، سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج ہیں۔

خیال رہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی اور گولڑہ پولیس اسٹیشن میں درج 2 ایف آئی آرز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کے باہر پولیس پر حملہ کیا اور بے امنی پیدا کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی سربراہ و دیگر رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 148، 149، 186، 353، 380، 395، 427، 435، 440 اور 506 شامل کی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ 28 فروری کو عمران خان کے خلاف درج مختلف مقدمات کی اسلام آباد کی مقامی عدالتوں میں سماعت ہوئی تھی جہاں دوران سماعت وہ پیش ہوئے تھے۔

عمران خان اپنے پارٹی کارکنان اور رہنماؤں کے ہمراہ قافلے کی شکل میں اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں پیشی کے لیے لاہور سے وفاقی دارالحکومت پہنچے تھے۔

جوڈیشل کمپلیکس میں موجود عدالتوں میں ان کی پیشی کے موقع پر شدید بے نظمی دیکھنے میں آئی اور بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کارکنان زبردستی احاطہ عدالت میں داخل ہونے میں کامیاب رہے تھے، اس سلسلے میں اسلام آباد پولیس نے کارِ سرکار میں مداخلت پر 25 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

بعدازاں عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ آمد پر ہنگامہ آرائی کے خلاف یکم مارچ کو اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں 2 علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کرلیے گئے تھے۔

دونوں مقدمات میں سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے 21 رہنماؤں اور 250 کارکنان کو بھی نامزد کیا گیا تھا، ان مقدمات میں دہشت گردی ،کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری اہلکاروں سے مزاحمت کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔

عمران خان کی سیکیورٹی فراہمی کی درخواست: سابق وزرائے اعظم کو ملنے والی سیکیورٹی کے رولز طلب

قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران سابق وزرائے اعظم کے لیے سیکیورٹی رولز طلب کر لیے تھے۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مبینہ دھمکی آمیز بیان کے بعد عمران خان کی سیکیورٹی فراہمی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔

عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر، حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل جبکہ وزارت داخلہ کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت عدالت نے سابق وزرائے اعظم کو دی جانے والی سیکیورٹی رولز طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ عدالت کو بتائیں کہ سابق وزیر اعظم کی کیا سیکیورٹی ہے کتنی سیکیورٹی ہے، رولز پیش کریں پھر آرڈر جاری کریں گے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان اس کیس میں پیش نہیں ہوسکتے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں تو حاضری بنتی ہی نہیں یہ تو سیکیورٹی فراہم کرنے کا کیس ہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ اوہ سوری، یہ میرا کیس نہیں اس میں فیصل چوہدری وکیل ہیں، وہ سپریم کورٹ میں ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ درخواست گزار سابق وزیر اعظم ہیں، سیکیورٹی کا کیا قانون ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ ایکٹ 1975 کا سیکشن 17 وزیر اعظم کی سیکیورٹی سے متعلق ہے، مناسب سیکیورٹی فراہم کی جائے گی، سابق وزیر اعظم کی سیکیورٹی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگا، اسپیشل گزٹ کے ذریعے یہ قانون ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے؟، منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ جی عمران خان کو ایک بلٹ پروف گاڑی فراہم کی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں بلٹ پروف گاڑی پر نہیں آیا ابھی، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سیکیورٹی صوبائی معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوبارہ پڑھ لیں جو نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا، یہ ہدایات آپ دفتر سے لے کے آیا کریں، آپ پیچھے کھڑے افسر سے پوچھ رہے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسسمنٹ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ کیا سیکیورٹی ہے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزارت داخلہ میں کوئی پڑھا لکھا بندہ ہے؟

دریں اثنا وزارت داخلہ کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا اور عدالت کو آگاہ کیا کہ لائف ٹائم سیکیورٹی دی جاتی ہے لیکن اس کا نوٹیفکیشن جاری ہونا تھا وہ ابھی تک نہیں ہوا، اسلام آباد کی حد تک یہ معاملہ وفاقی حکومت دیکھتی ہے جبکہ باقی صوبوں میں معاملہ اپنا اپنا ہوتا ہے، ڈی آئی جی سیکیورٹی دیکھتے ہیں، پنجاب کی حد تک آئی جی پنجاب معاملہ دیکھیں گے، جب تک عمران خان اسلام آباد تھے تب تک انہیں فول پروف سیکیورٹی دی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فول پروف یا اپریل فول کو چھوڑیں، یہ بتائیں کہ پھر کیا ہوا؟ اب کیا صورتحال ہے؟، وزارت داخلہ کے نمائندے نے بتایا کہ عمران خان کو سیکیورٹی فراہم کر رکھی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنرلائز سیکیورٹی کا آرڈر ہے تو وہ تو کرنا ہوتا ہے، درخواست گزار کے لیے کیا آرڈر ہے، بار بار پوچھ رہے ہیں کہ جب سابق وزیر اعظم کوئی بھی ہو جب وہ اسلام آباد آئیں گے تو سیکیورٹی کون دے گا؟، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک رٹ پٹیشن کے جواب میں صوبوں میں سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے۔

ایڈووکیٹ سلمان صفدر نے کہا کہ وزیر آباد کا واقعہ ہوا ہے سب کے سامنے ہے، سلمان تاثیر کا واقعہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو قانون ہے وہ قانون ہے جو قانون میں لکھا ہے وہ سیکیورٹی دیں، لاہور کو چھوڑ دیں اسلام آباد کا بتادیں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، یہ کیس بھی نمٹایا ہی جائے گا آپ کو بھی پتا ہے، قانون قاعدہ جو بھی ہے وہ عدالت میں جمع کروادیں، ایک قیدی اگر جیل میں ہے تو اس کے بھی حقوق ہیں، ہر شخص کے حقوق موجود ہیں۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آج ہم جج ہیں کل ہم جج نہیں ہوں گے، مغرب آج کیوں ہم سے آگے ہیں کیونکہ ان کے رولز ہیں، ایسے نہیں کہ کل کوئی اپوزیشن میں ہو تو قانون بدل جائے اور جب حکومت میں آئے تو قانون اور ہو۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گزشتہ 2 سے 3 بار جب عمران خان کے کیس کی سماعت ہوئی تھی تو اس وقت فول پروف سیکیورٹی کے آرڈر کہاں ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے لیٹر عدالت میں پیش کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ تو جنرل لیٹر ہے، اس میں سابق وزیراعظم کا ذکر ہے، پیٹیشنر کے مخصوص نام سے لیٹر کہاں ہے۔

ایڈووکیٹ سلمان صفدر نے کہا کہ سیکورٹی کا پلان نہیں تھا، وزیر آباد کا واقعہ ہوا ہے، سلمان تاثیر کے واقعہ کے حوالے سے اس عدالت کی آبزرویشن تھی کہ درخواست کی تسلی کے مطابق سیکیورٹی ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افسوس ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں سرکار خود سے کیوں نہیں کرتی، کیوں عدالت آنا پڑتا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ تھریٹ الرٹ کے حوالے سے آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کے حوالے سے تشخیص کرنی ہو گی، جو جس کا قانونی حق ہے وہ اس کو ملنا چاہیے، سابق وزیراعظم کو اُن کے رتبے کے مطابق سیکیورٹی ملنی چاہیے، اچھی مثالیں قائم کریں۔

عدالت نے سابق وزرائے اعظم کو دی جانے والی سیکیورٹی کے رولز طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’رولز پیش ہونے پر مناسب حکم جاری کریں گے‘، بعدازاں عدالت نے کیس پر مزید کارروائی اگلی سماعت تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 26 مارچ کو رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ عمران خان نے سیاست کو اس اسٹیج پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں اب یا تو وہ رہیں گے یا ہم، اگر ہم سمجھیں گے کہ وجود کی نفی ہو رہی ہے تو ہر حد تک جائیں گے۔

نجی نیوز چینل ’پی این این‘ کو دیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان سیاست میں جمہوری روایات، پرامن سیاسی ماحول پر یقین نہیں کرتے بلکہ انہوں نے سیاست کو دشمنی بنا دیا ہے اوراب وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ ہم ان کو اپنا سیاسی مخالف سمجھتے تھے لیکن اب بات یہاں تک آگئی ہے کہ وہ بھی ہمارا دشمن ہے۔

بعدازاں 27 مارچ کو عمران خان نے رانا ثنا اللہ کے بیان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی جانب سے درخواست پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے دائر کی تھی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ رانا ثنا اللہ کا بیان کھلم کھلا دھمکی آمیز ہے، گھناؤنے منصوبے کے تحت عمران خان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے، اسلام آباد پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روکا جائے، درخواست میں اسلام آباد پولیس کے حکام کو فریق بنایا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024