• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد، حکمران اتحاد کا ہر فورم پر مزاحمت کا عزم

شائع April 6, 2023
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کا اجلاس ہوا—فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کا اجلاس ہوا—فوٹو: پی آئی ڈی

حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ہر فورم پر مزاحمت کا ردعمل ترتیب دے دیا، جس کے تحت پارلیمان سے حکومت کے مؤقف کی توثیق کرائی جائے گی اور آج اجلاس میں ممکنہ طور پر ایک قرارداد پیش کی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومتی شراکت داروں نے سپریم کورٹ کے تین ججوں چیف جسٹس عمر عطابندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر بھی سوچ بچار کیا، جو منگل کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب میں انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ دینے کے لیے بینچ کا حصہ تھا۔

حکمران اتحاد نے اہم فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں کیا، اجلاس میں حکمران جماعتوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔

ورچوئل اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا مکمل جائزہ لیا گیا، جہاں لندن سے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے شرکت کی۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیرخزانہ اسحٰق ڈار اور دیگر اراکین کابینہ بھی اجلاس میں شریک تھے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ’اراکین قومی اسمبلی نے ابھی جاری سیشن میں اس معاملے پر بحث کی اور ایک قرارداد پہلے بھی منظور کر لی گئی ہے جبکہ دوسری قرارداد جمعرات کو ایوان میں پیش کردی جائے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کرنے کا مقصد مجموعی صورت حال کا جائزہ لینا اور مؤثر جواب تیار کرنا ہے‘۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو ’آئین اور قانون کے ساتھ مذاق‘ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تین رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کی تھی اور اسی طرح سیاسی جماعتوں کی درخواست بھی مسترد کردی گئی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو کروانے کا نہ صرف پابند کیا بلکہ حکومت کو ہدایت کی وہ درکار 21 ارب روپے کا اتنظام کرے اور انتخابات کے لیے مکمل سیکیورٹی یقینی بنائے۔

وزیراعظم نے اجلاس کو بتایا کہ ہم نے صورت حال پر کابینہ اور پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد بھی ایک تفصیلی ملاقات کی تھی۔

نجی ٹی جیو نیوز کے پروگرام میں میزبان شاہزیب خانزادہ سے بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ اجلاس میں توثیق کی گئی ہے تین رکنی بینچ کا فیصلہ اقلیتی ججوں کا تھا جبکہ سپریم کورٹ کے 4 جج پہلے اس کیس میں ازخود نوٹس کیس کے بارے میں اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چار ججوں کا فیصلہ اصل فیصلہ ہے۔

راناثنااللہ نے کہا کہ ’آج اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کا مؤقف (تین ججوں کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے سے متعلق) آج (جمعرات) کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے اور پارلیمان سے توثیق کروائی جائے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی قانونی ٹیم نے اتحادیوں کو تفصیلی بریفنگ دی اور تین رکنی بینچ کے فیصلے کو ’متنازع، غیرمکمل اور ناقابل عمل‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت ’پارلیمان کی کسی قسم کی بے توقیری اور بے عزتی‘ برداشت نہیں کرے گی۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت کی جانب سے تینوں ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اجلاس میں اس پر بات ہوئی ہے لیکن حتمی فیصلہ آنے والے اجلاس میں کیا جاسکتا ہے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں حکومت کی قرارداد سے ایک غلط روایت قائم ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام فیصلے پارلیمان میں چیلنج نہیں کیے جاسکتے اور جس فیصلے کی حکومت مخالفت کر رہی ہے وہ دراصل اقلیتی فیصلہ ہے نہ کہ اکثریتی ججوں کا فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک منفرد کیس ہے جس کے لیے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا، جو بعد میں 7 ججوں پر آیا، پھر 5، 4 اور آخر میں 3 ججوں پر رہ گیا‘۔

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کو توہین عدالت پر فارغ کرنے سے متعلق سوال پر رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ معاملہ ہوا تو عدالت پوری پارلیمنٹ کو فارغ کردے گی کیونکہ ہم اپنے مؤقف کی تائید پارلیمنٹ سے کرنے جارہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024