سپریم کورٹ کا ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا عندیہ
سپریم کورٹ نے صحافی ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونے اور عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکامی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے 17 مارچ کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
عدالت عظمیٰ سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے تحریری حکم نامے کے مطابق 17 مارچ کو ہونے والی سماعت کے موقع پر سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی بطور وکیل، مرحوم ارشد شریف کی والدہ، بیوی اور پانچ بچوں کے توسط سے عدالت میں پیش ہوئے۔
انہوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ جیسے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے خصوصی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کردی گئی ہے تو اس تحقیقات کی عدالتی نگرانی حقیقتاً جائز نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ عدالت بالخصوص مفاد عامہ پر اثرانداز ہونے والے معاملات پر نظر تو رکھ سکتی ہے لیکن اس کی باقاعدہ نگرانی نہیں کر سکتی۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ موجودہ ازخود نوٹس نے عوامی اہمیت کے حامل کئی سوالات کھڑے کیے ہیں جن کا براہ راست تعلق صحافی برادری اور پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پانچ دسمبر 2022 کو سوموٹو کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تھا تو یہ مشاہدہ کیا گیا تھا کہ صحافیوں اور عوام کے پانچ ہزار سے زائد خطوط عدالت کو موصول ہوئے تھے جنہوں نے صحافی ارشد شریف قتل کیس کی صاف اور شفاف تحقیقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔
اس کے بعد عدالت نے قتل کی تحقیقات میں کسی بھی قسم کی پیش رفت نہ ہونے پر 6 دسمبر 2022 کو ازخود نوٹس لیا تھا جس کا مقصد ارشد شریف قتل کیس کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرانا تھا۔
عدالت میں اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن پیش ہوئے تھے جنہوں نے عدالت میں کینیا کی حکومت سے اس سلسلے میں ہونے والے رابطوں اور تعاون کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 15 مارچ کو کینیا کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ کینیا کے حکام سے اب تک جو بھی درخواست کی گئی ہیں ان کے جواب ایک ہفتے کے اندر جمع کرا دیے جائیں گے۔
عدالت نے تسلیم کیا کہ مذکورہ کیس حساس نوعیت کا ہے جس کی متعدد غیرملکی دائرہ اختیار تک پھیلا ہوا ہے اس لیے اس کے فوری نتائج برآمد ہونے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی البتہ عدالت عظمیٰ نے اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران مقدمے پر پیش رفت رک گئی ہے۔
عدالت نے اس موقع پر حکومت اور خصوصی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تین ہفتوں کا وقت دیا تھا اور ایسا نہ کرنے اور عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکامی کی صورت میں ارشد شریف قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا عندیہ دیا تھا۔
ارشد شریف کا قتل
ارشد شریف گزشتہ سال اگست میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے جہاں انہیں اکتوبر میں قتل کردیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیراملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔
اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔
قتل کے فوری بعد جاری بیان میں کینیا پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کی گاڑی پر رکاوٹ عبور کرنے پر فائرنگ کی، نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نیروبی کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’50 سالہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف گاڑی نمبر کے ڈی جی 200 ایم پر سوار مگادی، کاجیادو کی حدود میں پولیس کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہوگئے تھے‘۔
کینیا کی پولیس نے واقعے کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے بیان میں مزید کہا تھا کہ ’این پی ایس اس واقعے پرشرمندہ ہے، متعلقہ حکام واقعے کی تفتیش کر رہی ہیں تاکہ مناسب کارروائی ہو‘۔
کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔