• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

ٹائم میگزین کے سرورق پر عمران خان کی تصویر، حامی مضمون کے متن پر برہم

شائع April 5, 2023
مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ عمران خان کی خامیوں کی نشاندہی کرنے میں پی ٹی آئی کے ناقدین بھی پیچھے نہ رہے—فوٹو: ٹائم میگزین/ٹوئٹر
مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ عمران خان کی خامیوں کی نشاندہی کرنے میں پی ٹی آئی کے ناقدین بھی پیچھے نہ رہے—فوٹو: ٹائم میگزین/ٹوئٹر

معروف امریکی جریدے ’ٹائم میگزین‘ نے اپنے تازہ ایڈیشن میں سابق وزیر اعظم پاکستان اور چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے بارے میں ایک کور اسٹوری شائع کی ہے جس کے عنوان ’عمران خان کی حیران کن کہانی‘ کے ساتھ اُن کی تصویر سرورق پر لگائی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس آرٹیکل نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی بھرپور توجہ حاصل کی اور سابق وزیر اطلاعات و رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری نے اسے فوری طور پر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا اور ساتھ ہی اس کے سرورق کی تصویر بھی لگائی۔

یہ مغربی رسائل میں شائع ہونے والے عمومی آرٹیکلز کی طرح کچھ تعریف اور کچھ تنقید سے بھرا آرٹیکل تھا جس میں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کا تجزیہ کیا گیا اور پاکستان اور عمران خان دونوں کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی گئی۔

ٹائم میگزین نے عمران خان کے ساتھ زوم پر انٹرویو بھی کیا لیکن سوال و جواب کے فارمیٹ کے بجائے پورے آرٹیکل میں انٹرویو کے اقتباسات شائع کیے گئے، جن میں کہیں ان کی کامیابیوں کو اجاگر کیا گیا اور کہیں ان کی ناکامیوں پر روشنی ڈالی گئی، انٹرویو کے کچھ اقتباسات کو ٹائم میگزین کی عمران خان اور پاکستان کے بارے میں مثبت اور منفی پیش گوئیوں کی توثیق کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔

لیکن عمران خان کے حامیوں کو یہ انداز پسند نہیں آیا اور انہوں نے اپنے ناپسندیدہ پاکستانی پبلی کیشنز پر ردعمل کی طرح اِس کا غصہ بھی ٹائم میگزین اور مصنف چارلس کیمبیل پر نکال دیا۔

پی ٹی آئی کے ایک حامی معاذ الدین نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’ٹائم میگزین کا تبصرہ عالمِ اسلام کے بارے میں مغرب کے دہرے معیار، محدود نکتہ نظر اور گمراہ کن تصور سے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، یہ آرٹیکل ایشیائی ممالک کے بارے میں مغربی دنیا کی نوآبادیاتی سوچ پر مبنی روایتی تصور (استشراق) کی ایک بہترین مثال ہے‘۔

پی ٹی آئی کے ایک اور حامی بیا آغا نے دعویٰ کیا کہ ’یہ آرٹیکل حقائق کو مبہم کرنے اور حقارت کو معروضیت کے لبادے میں چھپانے کے استشراقی فن کا نمونہ ہے‘۔

مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ عمران خان کی خامیوں کی نشاندہی کرنے میں پی ٹی آئی کے ناقدین بھی پیچھے نہ رہے، ایسے ہی ایک ناقد نے لکھا کہ ’آرٹیکل میں صرف اور صرف عمران خان کو ہی پاکستان کے معاشی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے‘۔

معاذ الدین نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹائم میگزین کے مذکورہ آرٹیکل میں شامل نکات کی فرداً فرداً تردید پوسٹ کی جو فوری طور پر مقبول ہو گئی اور چند ہی گھنٹوں کے اندر تقریباً 50 ہزار لوگوں نے ان ٹوئٹس کو دیکھا، پی ٹی آئی کے سیکڑوں حامیوں نے اسے ری ٹوئٹ بھی کیا اور اُن میں سے بھی کچھ ٹوئٹس کو ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔

تاہم مذکورہ آرٹیکل میں عمران خان کا یہ مؤقف پیش کیا گیا کہ ’صرف انتخابات ہی اس تلخ سیاسی تقسیم کو ختم کر سکتے ہیں جس سے پورا ملک متاثر ہورہا ہے‘۔

انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ ’پاکستان میں سیاسی استحکام انتخابات کے ذریعے آتا ہے، یہ معاشی بحالی کا نقطہ آغاز ہوگا‘۔

تاہم مذکورہ آرٹیکل میں کہا گیا کہ ’پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، جس کے پاس صرف 4 ارب 60 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی ذخائر باقی رہ گئے ہیں، یعنی 20 ڈالر فی شہری، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس بحران کو صرف انتخابات کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا‘۔

پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر کیمرون منٹر نے کہا کہ ’اگر پاکستان ڈیفالٹ کرگیا اور اسے تیل نہیں ملا تو کمپنیاں تباہ ہوجائیں گی اور لوگوں کے پاس نوکریاں نہیں رہیں گی جس کے بعد یہ انقلاب کے دہانے پر کھڑا ملک سمجھا جائے گا‘۔

یہ آرٹیکل سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے حکم کو مسترد کرنے سے چند گھنٹے قبل شائع ہوا، لہٰذا اس نے سوشل میڈیا اور امریکا میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہرین کے درمیان کافی بحث چھیڑ دی۔

یہ بحث ان 3 اہم نکات پر مرکوز تھی کہ کیا پی ڈی ایم حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی اور حکم کے مطابق 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرائے گی؟ کیا فوج حکومت کو اس حکم نامے پر عملدرآمد پر آمادہ کرے گی؟ اور امریکا کس کا ساتھ دے گا؟

آرٹیکل میں آخری سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’امریکا کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک غریب، شورش زدہ اسلامی ریاست کو سنبھالنے کے لیے عمران خان کے ایک مثالی انتخاب ہونے کے امکانات کم ہیں‘۔

آرٹیکل میں نشاندہی کی گئی کہ عمران خان نے امریکا پر اپنی حکومت گرانے کا غلط الزام عائد کیا، علاوہ ازیں اس آرٹیکل میں عمران خان کے طالبان کے حق میں بیان، روس اور چین سے قربت کی کوششیں اور بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ان کے اختلافات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024