’پاکستانی مرد خواتین کو حقارت سے دیکھتے ہیں‘ برطانوی سیکریٹری داخلہ کے بیان پرشدید تنقید
برطانوی سیکریٹری داخلہ سویلا بریورمین کے بیان کہ پاکستانی نژاد برطانوی مرد ’ثقافتی اقدار کو برطانوی اقدار سے متصادم رکھتے ہیں‘ کو سیاسی مبصرین اور بچوں کے فلاحی اداروں نے ’اشتعال انگیز‘ اور ’نسلی جنگیں‘ شروع کرنے کے مترادف قرار دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سویلا بریورمین اس وقت تنقید کی زد میں آگئیں جب، بچوں کے جنسی استحصال سے نمٹنے کے منصوبوں کے بارے میں اسکائی نیوز کے انٹرویو کے دوران انہوں نے ’برطانوی پاکستانی مردوں کی برتری کے بارے میں بات کی جو کہ ثقافتی اقدار کو برطانوی اقدار سے بالکل متصادم رکھتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’(برطانوی-پاکستانی مرد) خواتین کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہمارے رویے کے حوالے سے ایک فرسودہ اور واضح طور پر گھناؤنا انداز اپناتے ہیں۔
سویلا بریورمین نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جب انہیں بتایا گیا کہ سال 2020 میں محکمہ داخلہ کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے زیادہ تر گینگ 30 سال سے کم عمر کے سفید فام مردوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ کہ اس بات کے کافی شواہد نہیں جو یہ بتا سکیں کہ گرومنگ گینگ میں غیر متناسب طور پر زیادہ تر ایشیائی یا سیاہ فام باشندے ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے اس کے بجائے رودرہم کی ان رپورٹس کی جانب اشارہ کیا جو بچوں کے جنسی استحصال کے اسکینڈل کی وجہ سے مچنے والی ہلچل کی تھی جس میں 5 برطانوی-پاکستانی مردوں کو نوجوان لڑکیوں کی پرورش، ریپ اور ان کا استحصال کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
سیکریٹری داخلہ نے ڈیم لوئیس کیسی سی بی کی لکھی ہوئی 2015 کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح برطانوی-پاکستانی کمیونٹی کو اسکینڈل میں ’وابستگی سے نقصان‘ پہنچایا گیا۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک، جن کی جانب سے بچوں کے خلاف جنسی تشدد سے نمٹنے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کرنے توقع ہے، انہوں نے کہا کہ گرومنگ گینگ کا کریک ڈاؤن ’سیاسی درستی‘ کی نفی کرے گا تاہم انہوں نے پاکستانیوں کو نشانہ بنانے والے سویلا بریورمین کے تبصروں کو نہیں دہرایا۔
حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ تجربہ کار ماہر افسران اور نیشنل کرائم ایجنسی کے ارکان بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی تحقیقات میں پولیس فورسز کی مدد کریں گے۔
سیکریٹری داخلہ کے بیان پر ردِ عمل
سویلا بریورمین کے بعد اسکائی نیوز کے ایک شو میں بات کرتے ہوئے، ویسٹ یارکشائر کی میئر ٹریسی بریبن نے کہا کہ ’یہ زیادہ سیاسی پیغام محسوس ہورہا ہے اگر میں کہہ سکتی ہوں اور یہ حقیقت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘۔
برطانوی اداکار اور پریزینٹر عادل رے ان بہت سے لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے نشاندہی کی کہ محکمہ داخلہ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر مجرم سفید فام ہیں، جب یہ رپورٹ شائع ہوئی سویلا بریورمین اس وقت اٹارنی جنرل تھیں۔
برطانوی نژاد امریکی سیاسی مبصر مہدی حسن نے ٹوئٹ کی کہ ’سخت مقابلے کے باوجود اور اپنی نسل کے باوجود سویلا بریورمین کئی دہائیوں میں جدید برطانوی کنزرویٹو پارٹی سے ابھرنے والی سب سے متعصب، گھٹیا اور خطرناک سیاست دان ہو سکتی ہیں، یہ گھٹیا اور بے ایمان بات ہے۔
سابق چیف پراسیکیوٹر نذیر افضل نے بھی بچوں کے جنسی استحصال کے اعداد و شمار میں سفید فام مجرموں کی اکثریت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سویلا بریورمین جانتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرنے والے 84 فیصد مجرم سفید فام برطانوی ہیں لیکن انہوں نے ان پر بات کرنے کا انتخاب کیا جو نہیں ہیں‘۔