وفاقی کابینہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کی منظوری دے دی
وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کی خدمات واپس لینے کی منظوری دے دی گئی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آفیشل سوشل میڈیا پیج پر جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وزیر اعظم ہاؤس میں وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا، اجلاس نے 2 نکاتی ایجنڈے پر تفصیلی غور کیا۔
وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ اور اٹارنی جنرل فار پاکستان نے وفاقی کابینہ کو مختلف امور پر بریفنگ دی۔
بیان کے مطابق وفاقی کابینہ نے عدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے سرکلر جاری کرنے کے معاملے پر غور کیا اور رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔
وفاقی کابینہ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر فی الفور دستخط کریں تاکہ ملک کو آئینی وسیاسی بحران سے نجات مل سکے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کو لکھا خط سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ رجسٹرار کی جانب سے جاری سرکلر سپریم کورٹ کےفیصلے کی خلاف ورزی ہے، خط میں رجسٹرار کو فوری طور پر عہدے سے دستبردار ہونے کا کہا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے خط میں کہا تھا کہ بطور رجسٹرار سپریم کورٹ کورٹ آپ کے پاس عدالتی حکم کے خلاف سرکلر جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا، چیف جسٹس سپریم کورٹ انتظامی نوعیت کے احکامات جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ بطور رجسٹرار سپریم کورٹ آئین و قانون کے خلاف جاری سرکلر فوری واپس لیا جائے، انہوں نے لکھا کہ آئین وقانون کی خلاف ورزی پر آپ فوری طور پر رجسٹرار سپریم کورٹ کا عہدہ چھوڑ دیں، آپ کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ رجسٹرار آفس میں رہنے کے اہل نہیں ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں تحریر کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اپنے افسر کو فوری واپس بلائے اور مناسب سمجھے تو رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف آئین کی خلاف ورزی پر قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینے سے متعلق جسٹس قاضی عیسیٰ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ کا فیصلہ جاری کیا تھا جس میں عدالت عظمیٰ نے رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 تھری (ازخود نوٹس) کے تمام کیسز ملتوی کرنے کی تجویز دے دی تھی۔
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ دو ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا ،جسٹس شاہد وحید نے دو ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جسٹس امین الدین کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، 9 صفحات پر مشتمل فیصلہ سینیئر جج جسٹس فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے اجرا کے اگلے روز ہی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کے فیصلے میں آرٹیکل 184 (3) سے متعلق آبزرویشن ازخود نوٹس کے زمرے میں نہیں آتی۔
سرکلر میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کا چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ کی تشکیل کے اختیارات سے متعلق فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 3 رکنی بینچ کا فیصلہ صحافیوں سے متعلق 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے منافی ہے۔
سرکلر میں مزید کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان نے جو فیصلہ دیا وہ 3 رکنی بینچ کا فیصلہ ہے جبکہ سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پہلے ہی اس معاملے کو طے کر چکا ہے کہ ازخود نوٹس کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہی استعمال کر سکتے ہیں۔