• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

عمران خان، بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ تحقیقات کے خلاف درخواستوں پر نیب سے جواب طلب

شائع April 3, 2023 اپ ڈیٹ April 4, 2023
خواجہ حارث نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو بھی نوٹس بھیجا گیا وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں— فائل/فوٹو: ٹوئٹر
خواجہ حارث نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو بھی نوٹس بھیجا گیا وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں— فائل/فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف ’غیر قانونی‘ طور پر توشہ خانہ کے تحائف رکھنے پر شروع کی گئی انکوائری کے سلسلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) سے جواب طلب کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان اور بشری بی بی کی نیب نوٹسز کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے کی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ نیب نوٹس میں نہیں بتایا گیا کس حیثیت میں انفارمیشن مانگی جا رہی ہے، عدالتی فیصلے آچکے ہیں، نوٹس کی مکمل معلومات دینا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب پر لازم ہے وہ مکمل معلومات فراہم کرے، نیب کے پرانے قانون کے ہوتے یہ فیصلے آچکے تھے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ابھی جو نیب قانون میں ترامیم آئی ہیں ان میں نوٹس کا کیا طریقہ ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ ترمیمی قانون کہتا ہے، بتانا لازم ہے آپ کسی کو کیوں بلا رہے ہیں، ترمیمی قانون میں بتانا ہوگا کسی کو بطور ملزم بلایا یا کسی دوسری وجہ پر بلایا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا عمران خان کو طلبی کے نوٹس آگئے ہیں؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جی طلبی کے نوٹس آگئے ہیں۔

خواجہ حارث نے نیب کے نوٹس عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان نوٹسز میں نیب نے ہمیں معلومات فراہم نہیں کیں، نوٹس میں صرف لکھا گیا پبلک آفس ہولڈرز کے خلاف انکوائری ہے۔

وکیل عمران خان و بشری بی بی نے کہا کہ تحائف کے معاملے میں کابینہ ڈویژن اور ایف بی آر بھی شامل ہیں، کابینہ ڈویژن اور ایف بی آر بھی پبلک آفس ہولڈر میں آتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان ان نوٹسز کے جواب میں پیش ہوئے؟ ان نوٹسز کے جواب میں پیش نہیں ہوئے تحریری جواب بھیجا۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے پوچھا کہ کیا نیب نے عمران خان کے جواب پر کوئی نیا ایکشن لیا؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ ابھی تک نیب نے کوئی نیا ایکشن نہیں لیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے وہ عمران خان کے جواب پر مطمئن ہو گئے ہوں کیس نہیں بنتا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کیس کو انکوائری سے تفتیش میں بدل دیں گے، چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے جب استعفی دیا اس کے اگلے دن نوٹس ہو گیا، آفتاب سلطان نے بتایا تھا ان پر دباؤ ہے۔

عدالت نے کمرہ عدالت میں موجود نیب پراسیکیوٹر کو روسٹرم پر بلا لیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کو دوبارہ نوٹس بھیجا گیا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹرنے بتایا کہ عمران خان کو یاددہانی کا نوٹس بھیجا گیا تھا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کے نوٹسز میں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نظر نہیں آتا۔

بعد ازاں، عدالت نے عمران خان اور بشری بی بی کی طلبی کے نوٹسز کے خلاف درخواستیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہم ان درخواستوں پر آرڈر جاری کریں گے۔

بعدازاں عدالت نے نیب سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو بھی نوٹس بھیجا گیا وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی نیب کو کسی چیز سے روک نہیں رہے، نیب جو سوال پوچھنا چاہے پوچھ سکتا ہے بھلے وہ کوئی میٹریل نہ ہو۔

خیال رہے کہ یکم اپریل کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی توشہ خانہ کیس کے سلسلے میں نیب کی تحقیقات کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

بشریٰ بی بی نے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے دائر درخواست میں نیب کی جانب سے 16 مارچ اور 17 فروری کو جاری کردہ طلبی کے نوٹسز ہائی کورٹ میں چیلنج کیے تھے، مذکورہ درخواست میں چئیرمین نیب اور ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب راولپنڈی کو فریق بنایا گیا۔

مذکورہ درخواست میں چئیرمین نیب اور ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب راولپنڈی کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں انہوں نے عدالت سے نیب کے 17 فروری اور 16 مارچ کے طلبی کے نوٹس کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد میں عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ پر بھیجے گئے نوٹسز 17 فروری کو جاری ہوئے تھے جس پر ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد فیصل کے دستخط موجود تھے۔

نیب کے نوٹس ملزمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’ مجاز اتھارٹی نے نیب آرڈیننس 1999 کی دفعات کے تحت ملزمان کی جانب سے مبینہ طور پر کیے گئے جرم کا نوٹس لیا ہے’۔

نوٹس میں مزید کہا گیا کہ اس سلسلے میں کی گئی انکوائری میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ اپنے دورِ اقتدار کے دوران آپ نے غیر ملکی معززین کی جانب سے پیش کردہ بیش قیمت ریاستی تحائف میں سے کچھ حاصل کیے تھے۔

نوٹس کے مطابق ان تحائف میں 5 رولیکس گھڑیاں، 14 نومبر 2018 کو قطر کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف کی جانب سے پیش کیا گیا آئی فون، کف لنکس، ایک انگوٹھی، 18 ستمبر 2020 کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے دیا گیا پینٹ کوٹ کا کپڑا، گراف گفٹ سیٹ جس میں ایک گراف گھڑی ماسٹر گراف اسپیشل ایڈیشن مکہ ٹائم پیس، ایک 18 قیراط سونے اور ہیرے کا گراف پین، ایک انگوٹھی اور کف لنکس اور مکہ کی ایک مائیکرو پینٹنگ شامل ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024