• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

’اپنے جسم کے متعلق جانیے اور ڈاکٹر کو حیران کردیجیے‘

شائع April 11, 2023

ٹرن ٹرن ٹرن۔۔۔ رات کے دو بجے، خاموشی، نیند اور آن کال ڈیوٹی۔

فون کے دوسری طرف ہماری ٹیم کی ایک سینیئر ڈاکٹر۔۔۔

’جی آپ کو ایک بری خبر سنانی تھی‘۔

اللہ خیر۔۔۔ دل بیٹھ گیا۔

ایسے بہت سے واقعات ہم لکھتے ہیں جن میں ڈاکٹرز کی محنت، لگن اور کوشش قارئین کے سامنے لائی جاتی ہے ۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہوتا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی دکھایا جائے۔ ایسی ہی ایک صورتحال کا سامنا تھا ہمیں جب ہم نے اپنی ٹیم ممبر کا فون رات کے دو بجے سنا۔

’کیا ہوا‘؟ ہم نے پوچھا۔

’کمرہ نمبر 5 کی مریضہ کی سی ٹی جی خراب ہوئی، سیزیرین کیا لیکن بچے دانی پھٹی ہوئی ملی۔ بچہ بھی اچھی حالت میں نہیں‘۔

’اوہ۔۔۔ بہت برا ہوا۔ کونسی مریضہ تھی یہ‘؟

’دوسرا بچہ تھا یہ۔ پہلا بچہ آپریشن سے پیدا ہوا تھا اب وہ نارمل پیدا کرنا چاہتی تھی۔ شوگر کی مریضہ ہونے کی وجہ سے انسولین پر تھی سو اٹھتیس ہفتے پر مصنوعی درد شروع کرنے کے لیے سروائیکل بیلون (cervical baloon) ڈالا گیا تھا۔ بیلون کے ساتھ بچے دانی کا منہ 4 سینٹی میٹر کھل گیا تھا‘۔

اس کیس میں دوا کام کررہی تھی لیکن بچہ دانی مزاحمت کررہی تھی
اس کیس میں دوا کام کررہی تھی لیکن بچہ دانی مزاحمت کررہی تھی

’ایسا تو صبح میں تھا جب ہم نے راؤنڈ کیا تھا۔ اس کے بعد‘؟ ہم نے پوچھا۔

’جی لیکن اس کے بعد درد شروع نہیں ہوا چنانچہ ہم نے سنٹو ڈرپ شروع کی۔ کافی دیر ڈرپ چلنے کے بعد درد شروع ہوئے۔ آغاز میں درد تیز نہیں تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ بہتر ہوگئے‘۔

’سی ٹی جی کیسی تھی‘؟

’سی ٹی جی پہلے تو بہت اچھی تھی بس آخر میں جاکر بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہوئی‘۔

’آخری مرحلے سے پہلے سی ٹی جی کیسی تھی‘؟

’جی وہ نہ بہت اچھی، نہ بہت بری‘۔

’کیا مطلب‘؟

’جی کچھ واضح نہیں تھی۔۔۔‘

’واضح نہ ہونے پر آپ نے کیا کیا‘؟

’جی ہم لوگوں نے سوچا کہ کچھ اور انتظار کر لیا جائے‘۔

’کیوں‘؟

’کئی ایسے کیس دیکھے ہیں جن میں سی ٹی جی ایسی ہی ہوتی ہے لیکن بچہ بالکل ٹھیک پیدا ہوتا ہے‘۔

’کیا بچے دانی کا منہ نارمل رفتار سے کھلا‘؟

’نہیں، رفتار کم تھی‘۔

’درد تیز کرنے والی ڈرپ کے باوجود‘؟

’جی ہاں‘۔

’آپ کی کیا اسسمنٹ تھی‘؟

’ہمیں لگا کہ شاید سنٹو کی مقدار کم ہے اس لیے اچھے درد نہیں آرہے اور بچے دانی کا منہ تیزی سے نہیں کھل رہا‘۔

’آپ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ہوسکتا ہے سنٹو کی مقدار ٹھیک ہو مگر بچے دانی کے منہ کھلنے کی آہستہ رفتار اشارہ دے رہی ہے کہ کہیں کچھ غلط ہے‘؟

’یہ خیال نہیں آیا۔۔۔‘

’کیا بچے کے سر پر سوجن تھی جب آپ نے چیک کیا‘؟

’جی ہاں‘؟

’کیا آپ نے اس کی گریڈنگ کی تھی‘؟

’جی ہاں، پہلے گریڈ ون تھی، آخر میں جا کر گریڈ تھری ہوئی‘۔

’کیا بچے کا پاخانہ پہلے سے خارج ہوا‘؟

’ویجائنا کے راستے تو پتا نہیں چلا لیکن جب سیزیرین کیا تو بچہ پاخانہ کرچکا تھا‘۔

’بچہ دانی کہاں سے پھٹی ہوئی ملی‘؟

’پچھلے سیزیرین کا کٹ پورا کھل چکا تھا اور بچے کا کندھا نظر آرہا تھا‘۔

’پچھلا سیزیرین کیوں ہوا تھا‘؟

’اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ بچے دانی کا منہ 7 سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں کھل سکا تھا‘۔

’کیا اس زچگی میں وہی وجہ دوبارہ سے ہو سکتی ہے‘؟

’ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی‘۔

یہ کیس اور سوال و جواب سنانے کا ایک مقصد ہے۔ وہ یہ کہ نہ ڈاکٹر ایک جیسے ہوسکتے ہیں اور نہ انہیں پیش آنے والی صورتحال۔ یہ کیس اس بات کو واضح کرتا ہے کہ تقریباً ہر ڈاکٹر مریض کے متعلق مختلف اندازہ لگاکر فیصلہ کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے سڑک پر گاڑی چلانے والے ہر ڈرائیور کا حساب کتاب اپنا اپنا۔ کچھ کا اندازہ انہیں اچھا ڈرائیور بناتا ہے اور کچھ کا برا۔

نہ ڈاکٹر ایک جیسے ہوسکتے ہیں اور نہ انہیں پیش آنے والی صورتحال
نہ ڈاکٹر ایک جیسے ہوسکتے ہیں اور نہ انہیں پیش آنے والی صورتحال

ڈاکٹر کی ٹریننگ، قابلیت، سوچنے کا انداز ، خطرے کا حساب کتاب، مریض سے ہمدردی اور اپنے پیشے سے محبت فیصلہ کرتے ہیں کہ مریض ٹھیک ہوگا کہ نہیں؟

اس کیس میں کئی اشارے تھے جن سے واضح تھا کہ دوا کام کر رہی ہے مگر بچے دانی مزاحمت کر رہی ہے۔ خطرے کا ایک اور سگنل یہ بھی تھا کہ پچھلی زچگی میں بھی بچے دانی کا منہ 10 سینٹی میٹر نہیں کھل سکا تھا اور بچہ سیزیرین سے پیدا ہوا تھا۔

پچھلے آپریشن کی موجودگی میں مصنوعی درد شروع کروانے والی سب دواؤں کو بہت احتیاط سے استعمال کروانا چاہیے اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورت حال کو خطرے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ جسم ہمیشہ خطرے کا اشارہ دیتا ہے۔ ان اشاروں کو نظر انداز کرنا یا ان اشاروں کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہی کسی ڈاکٹر کو کامیاب بنا سکتا ہے۔

جسم کے اشاروں کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہی کسی ڈاکٹر کو کامیاب بنا سکتا ہے
جسم کے اشاروں کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہی کسی ڈاکٹر کو کامیاب بنا سکتا ہے

آپ کے لیے حل ایک ہی ہے۔ اپنے جسم کے متعلق جانیے اور ڈاکٹر کو حیران کر دیجیے جیسے ہماری صاحبزادی نے نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر کو کیا۔ سوالات کے تابڑ توڑ حملے کے بعد کہنے لگا، تم بہت سے ڈاکٹرز سے زیادہ جانتی ہو۔

آپ ڈاکٹر نہیں ہیں، غم نہیں لیکن اگر 21ویں صدی میں رہ کر سیکھ نہ سکیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024