• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

عمران خان کا حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہ بیٹھنے کا اعلان

شائع April 2, 2023 اپ ڈیٹ April 3, 2023
عمران خان نے کہا کہ ہم امید یہ کر رہے تھے کہ جب قمر باجوہ جائیں گے تو کوئی چینج آئے گا، کوئی چینج نہیں آیا — فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب
عمران خان نے کہا کہ ہم امید یہ کر رہے تھے کہ جب قمر باجوہ جائیں گے تو کوئی چینج آئے گا، کوئی چینج نہیں آیا — فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے اور اگر بات چیت ہوئی تو وہ ان کی پارٹی کے دیگر اراکین کریں گے۔

زمان پارک لاہور میں سعودی خبر رساں ادارے ’اردو نیوز‘ کو خصوصی انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ وہ حکمرانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں، اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو ان کی ٹیم اس میں حصہ لے گی، وہ نہیں۔

حکومتی وزرا کی طرف سے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور خود تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ بات صرف الیکشن کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ جیسی بڑی بڑی باتیں چھوڑیں، پہلے تو آئیں الیکشن پر جو قانون اور آئین کہتا ہے، اگر آپ الیکشن ہی نہیں کرا سکتے تو پھر کونسا ڈائیلاگ کرنا ہےکسی نے کسی سے، اس وقت ملک کا سب سے بڑا ایشو 90 روز میں الیکشن ہے۔

عمران خان نے کہا کہ 90 روز کا مقررہ وقت گزرتا جا رہا ہے، یہ آئین کی توہین اور بے حرمتی ہو رہی ہے، اگر آپ آئین کے اوپر نہیں چل رہے تو اس کے بعد پھر مذاکرات کس چیز کے کرنے ہیں، اس وقت جو سوال جواب طلب ہے وہ یہ ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر انتخابات 90 روز میں نہیں ہوں گے، اگر یہ یہاں سے نکل جاتے ہیں تو پھر اکتوبر میں بھی کیوں ہوں، پھر آپ کہیں گے کہ اگلے سال بھی کیوں ہوں، پھر تو جو طاقتور ہوگا وہ فیصلہ کرے گا، اس وقت ہی الیکشن ہوں گے۔

’سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کا مطلب پاکستان میں آئین و قانون ختم ہوگیا‘

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کا مطلب پاکستان میں آئین و قانون ختم ہوگیا، اس کا مطلب جنگل کا قانون آگیا، اس کا مطلب آپ فیصلہ کریں گے کہ سپریم کورٹ کا کونسا فیصلہ میں نے ماننا ہے اور کونسا نہیں ماننا۔

انہوں نے کہا کہ جب پارلیمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرکے الیکشن کرانے کا اعلان کیا تو سپریم کورٹ نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا، جس کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بن گئے، ہم نے اپنے خلاف کیے جانے والے فیصلے کو تسلیم کیا، اس وقت ان کے لیے سپریم کورٹ ٹھیک تھی، آج وہ سوموٹو نوٹس لے رہی ہے اور ان کو لگ رہا ہے کہ فیصلہ ان کے خلاف جائےگا تو اسے متنازع بنا رہے ہیں، یہ ان کی تاریخ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا، انہوں نے ججز خریدے، ان کی تاریخ ایس ہے، ہم اپنے آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، پوری قوم سپریم کورٹ کو سپورٹ کرے گی، ساری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے میں نواز شریف کا ہاتھ ہے، اس نے پہلے بھی اپنے مفادات کے لیے 1997 میں اس کو تقسیم کیا تھا، اس وقت بھی وہ اس تقسیم کے پیچھے ہیں، وہ بیانات دے رہے ہیں، ان کی بیٹی بیانات دے رہی ہے۔

’نئی فوجی قیادت آنے کے بعد صورتحال میں بہتری کی امید تھی، پہلے سے زیادہ تشدد شروع ہوگیا ’

عمران خان نے کہا کہ حکومت کون ہوتی ہے فیصلہ نہ ماننے والی، آپ کی حیثیت کیا ہے، ملک کے آئین و قانون کے مطابق آئین کی تشریح سپریم کورٹ کا کام ہے، سب کو پتا ہے کہ 90 روز میں الیکشن ہونے چاہییں، آپ کہہ رہے ہیں کہ 90 روز آگے چلے جائیں، سپریم کورٹ نے 90 دن کا کہنا ہےتو آپ ہیں کون یہ کہنے والے کہ ہم نہیں مانتے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی رابطہ نہیں ہے، کوئی بات نہیں ہوئی ان سے، کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے، الیکشن کے لیے ہم کسی سے بھی رابطہ اور بات چیت کرلیں گے۔

اس سوال پر کہ فوجی قیادت کے آپ کے ساتھ ذاتی اختلافات ہیں، عمران خان نے کہا کہ میں کہہ نہیں سکتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ قمر باجوہ نے ہمارے ساتھ بہت ظلم کیا، ان کی ایجنسیز نے، یہ جو 25 مئی کے واقعات ہوئے، جس سے پوچھو، وہ کہتا تھا کہ ہمیں پیچھے سے احکامات ہیں، پولیس نے جو تشدد کیا، وہ کہتے تھے کہ پیچھے سے وہ کر رہے ہیں یعنی جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کروا رہے ہیں، ہر قسم کے کیسز، میڈیا پر پابندی، ٹی وی چینلز سے پوچھو تو وہ کہتے تھے کہ یہ کر وا رہے ہیں تو پیچھے تو قمر باجوہ تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید یہ کر رہے تھے کہ جب قمر باجوہ جائیں گے تو کوئی چینج آئے گا، کوئی چینج نہیں آیا، وہی پالیسی چل رہی ہیں، بلکہ اس سے بھی شدت پکڑ گئی ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ مجھے نہیں پتا، کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے، بس اتنا پتا ہے کہ ہمارے اوپر اس سے زیادہ تشدد شروع ہوگیا ہے جو اس وقت تھا جب قمر باجوہ گئے تھے۔

’قابو کرنے کے لیے 2018 کے الیکشن میں ہماری سیٹیں کم کرائی گئیں‘

انہوں نے کہا کہ قمر باجودہ نے بہت گندا کردار ادا کیا، اس نے ہماری حکومت کے پیسوں سے حسین حقانی کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں، وہ وہاں میرے خلاف مہم چلا رہا تھا کہ قمر باجودہ پرو امریکا اور عمران خان اینٹی امریکا ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میری حکومت کس نے گرائی، آرمی چیف جو قانون سے بالا تر تھا، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، وہ سازش کرتا رہا اور آخر میں آکر اس نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر میری حکومت گرائی اور پھر اس نے امریکیوں کو بھی میرے خلاف کردیا۔

انہوں نے کہا کہ جب عوام ہمارے ساتھ آکر کھڑے ہوگئے، عوام کے خلاف کبھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ نہیں جاتی تو اس میں اتنی عقل ہونی چاہیے تھی کہ وہ تسلیم کرتا کہ وہ غلط فیصلہ کر بیٹھا ہے، وہ ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا جن کی وجہ سے عوام ہمارے ساتھ آگئی تھی، یعنی ہو جرائم پیشہ لوگ جو ہمارے اوپر آکر بیٹھ گئےہیں، جن کے اوپر 1100 ارب کے کرپشن کے کیسز تھے، جب وہ ان کے ساتھ آکر کھڑا ہوا تو قوم اور ادارے کے اندر بھی مزید فاصلہ بڑھ گیا۔

عمران خان نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں ہماری سیٹیں کم کرائی گئی تھیں، انہوں نے ہمیں قابو میں رکھنے کے لیے ہماری سیٹیں کم کروائیں، ہمارے خیال میں انہوں نے ہماری سیٹیں کم کروائیں، ہمیں 2018 میں اتنی سیٹیں نہیں ملیں جتنی ملنی چاہیے تھیں۔

’پتا ہے کہ اظہر مشوانی کو جس ایجنسی نے اغوا کیا تھا‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اظہر مشوانی کو سات دن کے لیے اغوا کرکے لے گئے اور ہمیں پتا ہے کہ کون لے کر گیا تھا، انہیں ایف آئی اے یا پولیس نہیں لے کر گئی تھی، ہمیں پتا ہے کہ انہیں کونسی ایجنسی لے کر گئی تھی، آصل میں یہ خوفزہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا انہوں نے مین اسٹریم میڈیا میں تو ہمیں بین کردیا ہے، جب ہم سوشل میڈیا پر آگئے ہیں تو یہ وہاں بھی آگئے ہیں کہ کسی طرح سے مجھے بلیک آؤٹ کیا جائے، انہوں نے ہمارے کئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو مارا پیٹا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024