ایران: ’حجاب آج ایک قانونی معاملہ ہے‘، بغیر نقاب والی خواتین پر دہی پھینکنے پر صدر ابراہیم رئیسی کا ردعمل
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ حجاب آج ایک قانونی معاملہ ہے جہاں مشہد شہر میں ایک شخص نے دکان میں بغیر نقاب کے آنے والی دو خواتین پر دہی پھینک دی۔
غیر ملکی خبر رسااں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق سرکاری ٹیلی ویژن پر بات کرتے ہوئے ابراہیم رئیسی نے کہا کہ اگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ حجاب پر یقین نہیں رکھتے تو یہ باتوں کی حد تک اچھا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ حجاب کی قانونی ضرورت ہے اور حجاب آج ایک قانونی معاملہ ہے۔
حکام کا کہنا ہے حملہ آور کا سامنا کرنے والے ڈیری شاپ کے مالک کو خبردار کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی رپورٹس کے مطابق شہری کی دکان بند کر دی گئی ہے، بعدازاں اسے دوبارہ کھولنے کی اجازت دی گئی اور اب وہ عدالت میں وضاحت پیش کریں گے۔
حجاب کے بغیر سڑکوں پر آنے والی خواتین کے خلا ف ’بغیر کسی رحم کے‘ مقدمہ چلایا جائے گا، عدلیہ
قبل ازیں ایران کی عدالت کے چیف جسٹس نے خبردار کیا ہے کہ حجاب کے بغیر سڑکوں پر آنے والی خواتین کے خلا ف ’بغیر کسی رحم کے‘ مقدمہ چلایا جائے گا۔
غیر ملکی نشریاتی ادارے عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایران میں لازمی قرار دیے گئے لباس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایرانی عدلیہ کے سربراہ نے خبردار کیا کہ حجاب کے بغیر عوام میں آنے والی خواتین کے خلاف ’بغیر کسی رحم کے‘ مقدمہ چلائیں گے۔
ایران کے چیف جسٹس غلام حسین محسنی ایجی کا انتباہ جمعرات (28 مارچ) کو وزارت داخلہ کے بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں حکومت کی طرف سے لازمی قرار دیے گئے حجاب کے قانون کو تقویت ملی ہے۔
عدلیہ کے سربراہ نے کہا کہ حجاب اتارنا ہمارے اقدار کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے، جو لوگ اس طرح کی غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں انہیں سزا دی جائے گی.
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے افسران واضح جرائم اور کسی بھی قسم کی غیر معمولی بات جو مذہبی قانون کے خلاف ہو اور عوامی سطح پر ظاہر ہو اسے عدالتی حکام کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایرانی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد حجاب کے بغیر سڑکوں پر نکل رہی ہے۔
مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران بھر میں ہزاروں مرد اور خواتین سڑکوں پر نکل آئے اور مہسا امینی سے انصاف کا مطالبہ کیا، اسی دوران مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
ابھی تک ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتاری کا خطرہ مول لے کر بھی خواتین کو ملک بھر کے مالز، ریسٹورنٹ، دکانوں اور گلیوں میں بڑے پیمانے پر حجاب کے بغیر دیکھا جاتا ہے جہاں اخلاقی پولیس کے خلاف مزاحمت کرنے والی خواتین کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہیں۔
وزارت داخلہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس معاملے پر کوئی قدم پیچھے یا برداشت نہیں ہوگی۔
وزارت داخلہ نے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ حجاب کے بغیر نظر آنی والی خواتین کی مخالفت کریں اور ماضی میں اس طرح کے احکامات سے خواتین پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔
آج ایرانی حکام نے ایک وائرل ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد دو خواتین کی گرفتاری کا حکم دیا جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص نے ان پر حجاب نہ پہننے پر حملہ کیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایران میں ایک دکان میں موجود دو خواتین گاہکوں سے زبانی جھگڑے کے بعد ایک شخص نے ان پر حملہ کیا۔
بعدازاں حکام نے اس شخص کے خلاف توہین آمیز عمل اور نظم و ضبط میں خلل ڈالنے کے الزام میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کیے، لیکن دونوں خواتین کے خلاف بھی سر سے اسکارف اتارنے کے جرم میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔
واضح رہے کہ 1979 کے انقلاب کے بعد نافذ ہونے والے ایران کے شرعی قانون کے تحت خواتین پر اپنے بالوں کو ڈھانپنے اور لمبے ڈھیلے کپڑے پہننے کی پابند ہے، تاہم خلاف ورزی کرنے والوں کو عوامی سرزنش، جرمانے یا گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔