لائحہ عمل پر غور کیلئے حکمران اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی حکومت کے رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر حکومت کے لیے آئندہ لائحہ عمل وضع کیا گیا۔
سرکاری خبررساں ادارے ’ریڈیو پاکستان‘ کی رپورٹ کے مطابق لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شہباز شریف نے ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اراکین کو قانونی امور پر بریفنگ دی۔
اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) خالد مقبول صدیقی اورحکومت کی دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں سمیت سربراہ مسلم لیگ (ن) نوازشریف بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہیں۔
وزیر اعظم کی معاونت کے لیے وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کے علاوہ عطااللہ تارڑ اور ملک احمد خان سمیت دیگر رہنما بھی اجلاس میں شریک ہیں۔
اس اجلاس کا اہتمام ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب ملک کو طویل عرصے سے درپیش معاشی و سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ اب عدالتی بحران کا بھی سامنا ہے۔
مزید برآں گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی ابتر ہوچکی ہے، دہشت گرد گروہ ملک بھر میں بلا روک ٹوک حملےکررہے ہیں۔
پنجاب میں انتخابات کے التوا کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ سے 2 ججز (جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل) علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔
گزشتہ 3 روز کے دوران اس معاملے پر سوموٹو کیس پر اختلافی نوٹس اور ججز کے درمیان تکرار کے بعد اب پی ٹی آئی کی درخواست 3 رکنی بینچ کے زیرسماعت ہے جوکہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی زیرسربراہی جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل ہے۔
دوسری جانب حکومت اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ کررہی ہے۔
گزشتہ شب مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے اس تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہی بینچوں کے فیصلوں نے تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے، ایسے فیصلے نہیں ہونے دینے چاہئیں جو ملک و قوم کو تباہ کردے، ہمیں بینچ ہی قبول نہیں ہے تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہو گا۔
دریں اثنا سابق وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ (ن) پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) نے جیسے 1997 میں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کرنے والے چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر حملےکے لیے سپریم کورٹ پر دھاوا بولا تھا، ویسے ہی وہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کودھمکا رہی ہےکیونکہ وہ انتخابات سےخوفزدہ ہے‘۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان تمام جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں جو آئین اور عدالت کے خلاف ’سازش‘ کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں۔
انتخابات التوا کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
خیال رہے کہ رواں ماہ ہی الیکشن کمیشن نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کے لیے شیڈول جاری کر دیا تھا۔
3 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 30 اپریل بروز اتوار کرانے کی تجویز دی تھی۔
ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کرنے کے بعد کیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں کرائے جائیں، تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی تھی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے ’کم سے کم‘ تاخیر کا شکار ہو۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اور گورنرز الیکشن کمیشن پاکستان کی مشاورت سے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تاریخیں طے کریں گے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئیں، قانون کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔
اس طرح 14 اپریل اور 17 اپریل پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ تھی لیکن دونوں گورنرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز ملنے کے بعد انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کا کہا تھا۔