• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

وزیراعظم کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف ریفرنس واپس لینے کا حکم

شائع March 30, 2023
حکومت کا مؤقف ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کمزور اور بے بنیاد وجوہات پر دائر کیا گیا تھا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
حکومت کا مؤقف ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کمزور اور بے بنیاد وجوہات پر دائر کیا گیا تھا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینےکاحکم دے دیا۔

وزیراعظم نے وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینے کی ہدایت کر دی۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس کمزور اور بے بنیاد وجوہات پر دائر کیا گیا تھا لہٰذا حکومت نے اس کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ پہلے ہی اس فیصلے کی منظوری دے چکی ہے۔

اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ریفرنس کے نام پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں اور بدنام کیاگیا، یہ ریفرنس نہیں تھا، آئین اور قانون کی راہ پر چلنے والے ایک منصف مزاج جج کے خلاف ایک منتقم مزاج شخص عمران خان کی انتقامی کارروائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ریفرنس عدلیہ کی آزادی پر شب خون اور اسے تقسیم کرنے کی مذموم سازش تھی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں نے اپوزیشن کے دور میں بھی اس جھوٹے ریفرنس کی مذمت کی تھی‘۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ ’عمران خان نے صدر کے آئینی منصب کا اس مجرمانہ فعل کے لیے ناجائز استعمال کیا، صدر عارف علوی عدلیہ پر حملے کے جرم میں آلہ کار اور ایک جھوٹ کے حصہ دار بنے، پاکستان بار کونسل سمیت وکلا تنظیموں نے بھی اس کی مخالفت کی تھی، ہم ان کی رائے کی قدر کرتے ہیں‘۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا، مئی 2019 سے جون 2020 تک یہ معاملہ تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

7 اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔

عدالت نے اپنے حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے آف شور اثاثوں کا معاملہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کو بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 19 جون 2020 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں 29 اپریل 2021 کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تاہم پی ٹی آئی حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک کیوریٹو ریویو ریفرنس دائر کیا تھا، جو تاحال سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024