لاہور ہائیکورٹ نے غداری کے قانون 124 (اے) کو آئین سے متصادم قرار دے دیا
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 (اے) کو آئین سے متصادم قرار دے دیا جسے غداری کا قانون کہا جاتا ہے، جو بغاوت کرنے یا حکومت کے خلاف ’عدم اعتماد‘ پھیلانے سے متعلق ہے۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 124 (اے) کے مطابق جو کوئی بھی شخص زبانی یا تحریر کے ذریعے یا دکھائی دینے والے خاکے کے ذریعے یا بصورت دیگر وفاق یا صوبائی حکومت کو جو بذریعہ قانون قائم کی گئی ہو، معرض نفرت یا حقارت میں لائے یا لانے کی کوشش کرے یا اس سے انحراف کرے یا اس سے انحراف اطاعت پر اکسائے یا اکسانے کی کوشش کرے تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا ایسی قید کی سزا دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جاسکتا ہے یا جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے یہ فیصلہ بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کی ایک جیسی درخواستوں کے جواب میں سنایا، تاہم تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔
ایک شہری ہارون فاروق کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں میں سے ایک جو دیگر درخواستوں سے مماثلت رکھتی تھی، جس میں عدالت سے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 (اے) کو آئین کے آرٹیکل 8 کے مطابق اختیارات سے تجاوز قرار دینے کی استدعا کی گئی، اور درخواست کی گئی کہ یہ آئین کے آرٹیکل 9، 14، 15، 16، 17 اور 19، 19 (اے) کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق سے بھی متصادم ہے۔
بغاوت کا قانون سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے، درخواست
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ بغاوت کا قانون 1860 میں بنایا گیا جو انگریز دور کی نشانی ہے، بغاوت کا قانون غلاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، کسی کے کہنے پر بھی مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ آئین پاکستان ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے، بغاوت کے قانون کو اب بھی دفعہ 124 (اے) کے ذریعے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
درخواست میں شہباز گل کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف بغاوت کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے، اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے تعلق رکھنے والے محسن داوڑ، علی وزیر سمیت دیگر قانون سازوں کا ذکر کیا گیا، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں بھی غداری کے الزامات کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ اس کے علاوہ مختلف نامور صحافی ارشد شریف، خاور گھمن، عدیل راجا اور صدف عبدالجبار کو بغاوت کے الزامات کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جاوید ہاشمی کو بھی غداری کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنائی گئی۔