آسمان کو چھوتی مہنگائی سے رمضان المبارک میں راشن تقسیم کرنے کی روایت بھی متاثر
اشیائے خورونوش کے تاجروں کا دعویٰ ہے کہ راشن پیک کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی مختلف اشیا کی فروخت گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں رمضان انتہائی کم رہی جس کی وجہ آسمان کو چھوتی قیمتیں اور عوام کی قوت خرید میں کمی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ایک روایت ہے کہ خاص طور پر رمضان میں لوگ راشن کے پیکٹ تیار کرتے اور انہیں ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
تاہم بجلی کے مہنگے بل، گیس کے نرخ اور پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اس سال غریبوں کی مدد کے لیے بڑا قدم نہیں اٹھانے دے رہیں۔
جوڑیا بازار کے ایک تاجر شکیل احمد نے کہا کہ مختلف اشیا جیسے دالوں، چاول، چینی وغیرہ کی فروخت گزشتہ سال کے مقابلے میں 60 فیصد کم ہوئی، اسی طرح دیگر اشیا جیسے گھی اور کوکنگ آئل، چائے، آٹا وغیرہ کی فروخت بھی توقعات سے کم رہی۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’جب ایک شخص کو اجناس کی قیمتوں میں ہولناک اضافے کی وجہ سے اپنے ہی خاندان کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے میں دشواری کا سامنا ہے تو وہ دوسروں کے لیے راشن کے تھیلوں کا انتظام کیسے کر سکتا ہے؟‘
شکیل احمد نے کہا کہ لوگ غیر متوقع صورتحال کی وجہ سے ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی بحرانوں سے پریشان ہیں۔
لہٰذا وہ احتیاط سے خرچ کر رہے ہیں، جن لوگوں نے گزشتہ سال 100 تھیلوں کی تیاری کے لیے کھانے پینے کی اشیا کا بندوبست کیا تھا، انہوں نے صرف 30-40 تھیلے بنانے کے لیے اشیا خریدی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ راشن کے تھیلوں کی قیمت کی حد عام طور پر 4 سے 8 ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے لیکن اس سال لوگ روزمر کی ضروریات زندگی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے 4 سے 5 ہزار روپے کے تھیلے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کچھ ہول سیل ریٹ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپر کوالٹی کے باسمتی چاول کی قیمت 370-380 روپے فی کلو ہے جس کے بعد آٹا 140-160 روپے فی کلو، چینی 110 روپے فی کلو، مونگ کی دال 245-260 روپے فی کلو، مسور 240-245 روپے فی کلو ہے۔ دال ماش 400 روپے فی کلو، کالا چنا 180-185 روپے فی کلو، سفید چنا 295-370 روپے فی کلو، درمیانے درجے کی باسمتی چاول کی قیمت 350-300 روپے فی کلو ہے جبکہ اچھی کوالٹی کے چاول کی قیمت 350 روپے فی کلو یا اس سے زیادہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اچھے معیار کے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت 550-680 روپے فی کلو گرام کے درمیان ہے جو گزشتہ سال 400-490 روپے تھی۔ چینی 110-120 روپے فی کلو فروخت ہوئی جو کہ گزشتہ سال 83-95 روپے فی کلو تھی۔
شکیل احمد نے کہا کہ ’ عموماً 15 شعبان سے رمضان کے پہلے ہفتے تک مختلف اشیا کی خریداری شروع ہوجاتی ہے لیکن اس سال مارکیٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں خریداروں کا رش نہیں تھا اور شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جس کی قیمت گزشتہ سال سے کم ہوئی ہو۔
ایک اور تاجر/ برآمد کنندہ فیصل انیس مجید نے کہا کہ گزشتہ سال ڈھائی ہزار روپے والے راشن پیک کی قیمت اب 5 ہزار وپے تک پہنچ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی خریدار نے راشن کے تھیلے بنانے کے لیے 50 ہزار روپے کی مقررہ رقم رکھی ہے تو اسے اس سال کم تعداد میں تھیلے تیار کرنے یا اشیا کی مقدار کو کم کرنے پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اشیا کی فروخت گزشتہ سال کے مقابلے میں کم از کم 50 فیصد کمی آئی ہے‘۔
عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن شکیل دہلوی نے کہا کہ اس سال مختلف اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی جانب سے فنڈنگ کا گراف گزشتہ سال کے مقابلے میں 50 فیصد کم ہے۔
ایک راشن بیگ سپلائی کرنے والے نے کہا کہ ’میں آپ کو کوئی خاص فیصد نہیں بتا سکتا لیکن اس سال راشن بیگ کی سپلائی کا حجم بہت کم ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے راشن فراہم کرنے کے بجائے اپنی تنخواہوں اور آمدنی کے مطابق نقد رقم دینے کو ترجیح دی ہے۔