• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

سائنسدانوں نے سورج سے 30 ارب گنا زیادہ بڑا بلیک ہول دریافت کرلیا

شائع March 29, 2023
ساننسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ دیوہیکل بلیک ہول اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے — فوٹو: پی پی نیوز ایجنسی
ساننسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ دیوہیکل بلیک ہول اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے — فوٹو: پی پی نیوز ایجنسی

برطانیہ کے ماہرین فلکیات نے سورج کے وجود سے 33 ارب گنا زیادہ حجم رکھنے والا دیو ہیکل بلیک ہول دریافت کرلیا۔

دی کومٹ ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دیوہیکل بلیک ہول اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے۔

یہ ریسرچ رائل ایسٹرانومیکل سوسائٹی کے جریدے جرنل منتھلی نوٹسز میں شائع ہوئی جس میں سائنس دانوں نے اس دریافت کو ’انتہائی دلچسپ‘ قرار دیا۔

ڈرہم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے مصنف ڈاکٹر جیمز نائٹنگیل نے کہا کہ یہ ’بلیک ہول ہمارے سورج سے زیادہ 30 ارب گنا زیادہ حجم رکھتا ہے اور یہ اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے، اس لیے یہ ایک انتہائی دلچسپ ہے‘۔

آپ کے سامنے جو تصویر ہے اس میں بیچ میں موجود سیاہ حصہ بلیک ہول ہے اور اس کے آس پاس انتہائی گرم گیسوں سے منعکس والی روشنی ہے، یہ گیسز بے پناہ کششِ ثقل کی وجہ سے گردش میں ہیں۔

۔ 2022 میں لی گئی تصویر—فوٹو: ناسا
۔ 2022 میں لی گئی تصویر—فوٹو: ناسا

اس سے پہلے یر ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ نامی بین الاقوامی تعاون تنظیم نے سنہ 2022 میں ’سیجیٹیریئس اے‘ نامی بلیک ہول کی تصویر جاری کی تھی، یہ بلیک ہول ہمارے سورج سے زیادہ 40 لاکھ گنا زیادہ حجم رکھتا تھا۔

2019 میں بلیک ہول کی پہلی تصویر جس کے اردگر گرم گیسوں کی وجہ سے روشنی کا ہالہ بنا ہوا ہے—فوٹو: ناسا
2019 میں بلیک ہول کی پہلی تصویر جس کے اردگر گرم گیسوں کی وجہ سے روشنی کا ہالہ بنا ہوا ہے—فوٹو: ناسا

اسی ٹیم نے سنہ 2019 میں ایک اور کہکشاں ’ایم 87‘ کے مرکز میں واقع بلیک ہول کی تصویر جاری کی تھی، وہ بلیک ہول اس بلیک ہول سے بھی ایک ہزار گنا زیادہ بڑا اور ہمارے سورج سے ساڑھے 6 ارب گنا زیادہ حجم کا حامل تھا۔

تاہم ڈاکٹر جیمز نائٹنگیل کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے بعد ہم اپنی کہکشاں ملکی وے سے دیگر کہکشاؤں میں موجود بلیک ہول کا بھی پتا لگا سکتے ہیں اور یہ بھی ظاہر کرسکتے ہیں کہ یہ بلیک ہولز کیسے بنے۔

سائنس دانوں نے ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اس بلیک ہول کی تصویر لی جس میں بلیک ہول کے حجم کی تصدیق کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا بلیک ہول ہے جو کشش ثقل (gravitational) لینسنگ کی مدد سے دریافت کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر جیمز نائٹنگیل کا بتانا ہے کہ زیادہ تر دیوہیکل بلیک ہول جنہیں ہم جانتے ہیں وہ اپنی فعال حالت میں موجود ہیں جہاں جہاں یہ روشنی، ایکس ریز اور دیگر تابکاری کی شکل میں توانائی خارج کرتے ہیں۔

تاہم کشش ثقل لینسنگ کی مدد سے غیر فعال بلیک ہولز کا مطالعہ کرنا ممکن ہے جو ابھی دور دراز کہکشاؤں کے بلیک ہولز میں فی الحال ممکن نہیں ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس دریافت کے بعد ممکن ہوسکے گا کہ ماہرین فلکیات مستقبل میں اس سے بھی کئی گنا بڑے بلیک ہولز دریافت کر سکتے ہیں۔

اس تحقیق کو برطانیہ کی اسپیس ایجنسی، رائل سوسائٹی، سائنس اور ٹیکنالوجی فیسلٹی کونسل، یو کے ریسرچ اینڈ انوویشن اور یورپی ریسرچ کونسل نے تعاون کی ہے۔

بلیک ہول کیا ہے؟

بہت زیادہ بڑے بلیک ہولز کائنات میں پائے جانے والے سب سے بڑے آبجیکٹ ہیں جن کا حجم سورج سے 10 ارب سے 40 ارب گنا بڑا ہوسکتا ہے۔

ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ یہ بلیک ہول ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے کے مرکز میں پائے جاتے ہیں، تاہم سائنس دان وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ کہکشاؤں کے مرکز میں پائے جانے والے یہ بلیک ہولز کیسے بنے ہیں۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جب کوئی ستارہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں ہوتا ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے یا پھر بلیک ہول میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کردیا جائے۔ اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں مقید کردیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجائے گا۔

یہاں کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز یہاں تک کہ روشنی بھی یہاں سے فرار نہیں ہو سکتی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024