• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مہنگائی سے متاثرہ صارفین کا ایران کی ’سستی‘ غذائی مصنوعات کا استعمال

شائع March 28, 2023
انہوں نے دعویٰ کیا کہ درآمدی ایرانی اشیا کی پیکیجنگ بہت اعلیٰ ہے جبکہ کچھ کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار
انہوں نے دعویٰ کیا کہ درآمدی ایرانی اشیا کی پیکیجنگ بہت اعلیٰ ہے جبکہ کچھ کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار

شہروں میں غذائی اشیا کی مہنگائی 42 فیصد پہنچنے کے بعد بڑی تعداد میں صارفین تھوڑی سستی لیکن اعلیٰ معیار کی ایرانی ’اسمگلنگ‘ والی اشیا جیسا کہ تیل اور پنیر خرید رہے ہیں جو راولپنڈی اور اسلام آباد میں دستیاب ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جڑواں شہروں کی متعدد دکانوں پر ایرانی مصنوعات کے لیے علیحدہ سے ریکس مختص کر رکھے ہیں لیکن ان اشیا کو خریدنے کی بہترین جگہ پشاور موڑ پر ہفتہ وار بازار ہے۔

ہفتہ وار بازار میں اسٹال لگانے والے نعمت خان خشک میوہ جات اور مصالحے فروخت کرتے ہیں لیکن اب ان کے اسٹال پر ایرانی مصنوعات کا علیحدہ سیکشن ہے، انہوں نے بتایا کہ ایرانی مصنوعات پر منافع کی شرح بہتر جبکہ کوئی شکایت بھی نہیں ہے اور یہ جلد خراب بھی نہیں ہوتیں۔

مارکیٹ میں بہت سی ایرانی مصنوعات دستیاب ہیں لیکن سب سے زیادہ طلب خوردنی تیل اور مکھن کی ہے، تاہم یہ گھریلو صارفین کے لیے بامشکل دستیاب ہیں کیونکہ تجارتی صارفین انہیں براہ راست ہول سیل ڈیلرز سے حاصل کر لیتے ہیں۔

ایرانی مصنوعات پر صارفین نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

عصمت زہرہ نے بتایا کہ 1.5 لیٹر لسی کی سیل پیک بوتل کو دیکھیں، اس کی نہ صرف پیکیجنگ بہت اعلیٰ ہے بلکہ دوسری مصنوعات کی طرح خراب ہونے کی تاریخ بھی واضح درج ہے۔

انہوں نے ٹماٹر کی چٹنی اور سرخ مرچوں کے پیسٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ صارفین کو کتنا ریلیف ملتا ہے جب تازہ ٹماٹر کی قیمتیں زیادہ ہوں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ درآمدی ایرانی اشیا کی پیکیجنگ بہت اعلیٰ ہے جبکہ کچھ کی قیمتیں پاکستانی مصنوعات کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ہر دکاندار کی مختلف قیمتیں ہیں لہٰذا بھاؤ تاؤ کرنا ضروری ہے۔

تاہم مسمات زہرہ نے بتایا کہ ایرانی مصنوعات درآمد نہیں کی جاتیں بلکہ یہ ایران اور بلوچستان اور افغانستان کے ذریعے اسمگل ہو کر ملک میں لائی جاتی ہیں۔

بلوچستان کے علاوہ ایرانی اشیا پہلے صرف لیاری میں دستیاب تھیں لیکن تاجر اب یہ مصنوعات ملک کے تقریباً تمام حصوں بشمول اسلام آباد میں فروخت کر رہے ہیں۔

زیادہ تر ہول سیلرز راولپنڈی میں فوارہ چوک کے نزدیک باجوڑ پلازہ میں ہیں، جہاں پر وسیع ایرانی مصنوعات دستیاب ہیں۔

تاہم باجوڑ پلازہ کے دکانداروں سے جب ان مصنوعات کے معیار، قیمت اور تجارتی راستے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ جواب نہیں دیتے۔

ماہرین کے مطابق سرحدی تجارت خاص طور پر بلوچستان۔ایران سرحد پر ’اسمگلنگ کے زمرے میں نہیں آتی‘۔

سینٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز (سی پی جی ایس) کے صدر ناصر شیرازی نے بتایا کہ بلوچستان میں آبادی کم اور بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے، ہمارے نظام کے لیے صوبے کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں ہے، حتیٰ کہ گوادر اور دیگر حصوں میں بجلی بھی ایران سے آتی ہے کیونکہ وہاں پر نیشنل گرڈ کو توسیع دینا بہت مہنگا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایرانی حکومت سرحدی علاقوں میں اپنے شہریوں کو رعایتی نرخوں پر اشیا فراہم کرتی ہے، اور اس کیس میں ایران میں بلوچ رہائشی اس فائدے کو پاکستان میں اپنی کمیونٹی کے دیگر افراد کو بھی منتقل کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اضافی مقدار کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے، اور اب یہ مصنوعات پنجاب کے شہروں کی مارکیٹ میں بھی دستیاب ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اشیا مکمل ڈیوٹی فری نہیں ہیں کیونکہ ٹرک سرحد سے شہروں تک جاتے وقت متعلقہ حکام کو کچھ ’تسلی‘ دے جاتے ہیں۔

تہران یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا نے ایرانی مصنوعات کی اعلیٰ کوالٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران، امریکی پابندیوں کی وجہ سے ’فری ٹریڈ‘ کے اثرات سے فائدہ نہیں اٹھا پارہا لیکن ہمیں معیار اور قیمت دونوں میں بہت زیادہ مسابقتی ہونا پڑتا ہے۔

ڈان سے بذریعہ فون بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایران کی غذائی مصنوعات متعدد خلیجی اور یورپی ممالک بشمول متحدہ عرب امارات اور قطر کو بھیجی جاتی ہیں، لہٰذا صنعتوں کو یورپی معیار کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024