زلمے خلیل زاد امریکی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے، امریکا
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واضح کیا ہے کہ افغانستان کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد ملک کی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے بیان نہیں دیتے۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا بیان پیر (27 مارچ) کو ایک پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کی سیاسی صورتحال سے متعلق زلمے خلیل زاد کے حالیہ بیان کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آیا۔
خیال رہے کہ زلمے خلیل زاد ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں امریکی صدور کے تحت افغان مفاہمت کے لیے خصوصی سفیر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ ’پاکستان کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور بھارت سے بہت پیچھے جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو تہرے بحران کا سامنا ہے ’سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی‘ اور بہترین صلاحیت کے باوجود یہ کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اپنے حریف بھارت سے بہت پیچھے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ سنجیدہ روح کی تلاش، جرأت مندانہ سوچ اور حکمت عملی کا وقت ہے‘۔
سابق امریکی سفیر نے پاکستان کو اس کے سیاسی رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
خاص طور پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو گرفتار کرنے کی پولیس کی حالیہ کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملک کے مشکلات سے نمٹنے کے لیے ’دو اقدامات‘ کی تجویز پیش کی تھی جس میں مزید بحران کو روکنے کیے لیے انتخاب کے لیے جون کے اوائل کی تاریخ مقرر کرنا شامل ہے۔
پریس بریفنگ میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ویدانت پٹیل نے کہا کہ زلمے خلیل زاد ایک پرائیویٹ شہری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی سوشل میڈیا سرگرمی یا تبصرے یا ٹوئٹس جن کا شاید آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ ذاتی حیثیت میں کیے گئے ہیں اور امریکی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے، اور وہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے بات نہیں کرتے۔‘
پاکستان میں سیاسی ’افراتفری‘ کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ تشدد، ہراساں کرنے یا دھمکی دینے کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جیسا کہ ہم دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کرتے ہیں، ہم پاکستان میں تمام فریقین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ قانون کی حکمرانی کا احترام کریں اور پاکستانی عوام کو اپنے آئین اور قوانین کے مطابق جمہوری طریقے سے اپنے ملک کی قیادت کا تعین کرنے کی اجازت دیں۔‘