• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am

الیکشن کمیشن کے فیصلے کا چاند آدھی رات کو طلوع ہوا جو قوم کے لیے تاریکی لے کر آیا، شہزاد وسیم

شائع March 27, 2023
مشترکہ اجلاس کے لیے 8 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز
مشترکہ اجلاس کے لیے 8 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز
مشترکہ اجلاس کے لیے 8 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے پی پی
مشترکہ اجلاس کے لیے 8 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے پی پی
راجا پرویز اشرف نے اجلاس کی کارروائی 10 اپریل دن گیارہ بجے تک ملتوی کردی—فوٹو: ڈان نیوز
راجا پرویز اشرف نے اجلاس کی کارروائی 10 اپریل دن گیارہ بجے تک ملتوی کردی—فوٹو: ڈان نیوز

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا ہے کہ قو م رمضان کا چاند دیکھنے میں مصروف تھی کہ آدھی رات کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا چاند طلوع ہوا جو قوم کے لیے تاریکی لے کر آیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹرز بھی شریک ہوئے جہاں قائد حزب اختلاف سینیٹر شہزاد وسیم نے خطاب کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر کڑی تنقید کی۔

سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے جانے کے بعد ہم آج پہلی بار ایوان میں آئے، قوم رمضان کا چاند دیکھنے میں مصروف تھی کہ رویت ہلال کمیٹی کا چاند نظر آنے کا اعلان پیچھے رہ گیا کہ اتنے میں آدھی رات کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا چاند طلوع ہوا جو قوم کے لیے تاریکی لے کر آیا۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے اس آدھی رات کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اعلان کرتے ہوئے اس کی دی ہوئی تاریخ کو الیکشن کرانے سے انکار کیا اور ایک اور نئی تاریخ دے دی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان نے اپنے فیصلے میں عذر دیا کہ آئی ایم ایف الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کی اجازت نہیں دے رہا جب کہ وہ الگ بات ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈز نے فوری طور پر رد عمل دیا کہ ہماری طرف سے اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے، یہ اْپ کا اپنا معاملہ ہے، آپ اپنی طرف سے فنڈز ارینج کریں۔

’جہاں جمہوری سوچ ہو، وہاں الیکشن سے بھاگا نہیں جاتا‘

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے دوسرا عذر پیش کیا کہ سیکیورٹی صورتحال ٹھیک نہیں ہے، اسپیکر اس بات کے گراہ ہیں کہ کتنے مشکل حالات سے ملک گزرا۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ صحافت کو ریاست کا اہم ستون مانا جاتا ہے، آج دیکھ لیں کہ ان کی جو زبان بندی ہے، ان کے اظہار پر جو پابندی ہے، ان کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے، جو زیادتیاں ہو رہی ہیں، آزاد آوازوں کو گلا دبایا جا رہا ہے، اس پر صحافی احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ بھی نہ کریں تو کیا کریں، ان کے پاس صرف کیمرہ اور قلم ہے، ان کے پاکس کوئی توپ اور تلوار نہیں ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اسپیکر صحافیوں کے احتجاج کو ریکارڈ کرائیں اور ان کے مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائیں۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ ہم محترمہ شہید کی شہادت دیکھ چکے، آپریشن رد الفساد دیکھ چکے، دہشت گردی کا عروج دیکھ چکے لیکن پھر بھی الیکشن ہوئے، ایران، عراق جنگ ہوئی، پھر بھی وہاں ایران میں الیکشن ہوئے، ترکیہ میں زلزلے سے ملک ہل گیا لیکن الیکشن کی تاریخ برقرار رہتی ہے، کیونکہ جہاں جمہوری سوچ اور رویے ہوتے ہیں وہاں الیکشن سے بھاگا نہیں جاتا، جس طرح مؤمن موت سے نہیں بھاگتا، اسی طرح سیاست دان الیکشن سے نہیں بھاگتا۔

پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ سیاست دان الیکشن کے روز کا منتظر ہوتا ہے جب وہ اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش ہوتا ہے اور یہ عوام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس کے سر پر دستار رکھتے ہیں اور کس کو کہتے ہیں کہ آپ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ الیکشن میں ہار جیت چلتی رہتی ہے، آئین پاکستان بھی یہ کہتا ہے کہ خودمختاری رب کی ہے لیکن زمین پر زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، زبان خلق کے اظہار کا طریقہ انتخابات ہیں، الیکشن کمیشن سب کام کر رہا ہے، اس پر تنقید کریں تو وہ کہتا ہے کہ میری توہین ہوگئی، توہین تنقید سے نہیں ہوتی، وہ آپ کے اعمال سے ہوتی ہے، آپ اپنا کام ٹھیک کریں، سب آپ کی عزت کرتے ہیں، کام ٹھیک نہ کریں تو تنقید ہوتی ہے۔

’عدلیہ، ججز کے خلاف باقاعدہ منظم مہم شروع کی گئی، آڈیوز کی بھرمار ہوئی‘

پی ٹی آئی سینیٹر نے مزید کہا کہ انہوں نے قوم کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے ، ایک فیصلے سے عدلیہ کے فیصلے کو رد کیا گیا ہے، دوسری طرف آئین میں دیے گئے طریقہ کار کو بھی رد کیا گیا ہے، یہ توہین آئین بھی ہے اور آئین کی خلاف ورزی بھی ہے، یہ معاملہ اب کسی پارٹی کا یا صرف تحریک انصاف کا نہیں رہا، یہ معاملہ ریاست اور عوام ہے کہ انہوں نے یہاں آگے اب کونسا راستہ چننا ہے۔

’ہم پارلیمنٹ میں آئین کی پابندی نہیں کریں گے تو ریاست کیسے چلے گی‘

انہوں نے کہا کہ کیا اس راستے پر چلنا ہے کہ مرضی کے مطابق جب دل کرے گا الیکشن کرائیں گے، جیسے دل ہوگا الیکشن کرائیں گے یا آئین کے مطابق الیکشن کرانا ہے، عدلیہ کے فیصلے مرضی کے مطابق ماننے ہیں یا اختلاف رکھتے ہوئے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کو رد کیا جس کے نتیجے میں یہ موجودہ حکومت بنی، وہ فیصلہ ہمیں سوٹ نہیں کرتا تھا لیکن ہم نے اس کو تسلیم کیا، ہمیں فیصلے تسلیم کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے اگر ہم نے اداروں کو مضبوط کرنا ہے ۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ فیصلہ تسلیم کرنا تو دور کی بات، ہم نے دیکھا کہ باقاعدہ ایک منظم مہم شروع کی گئی، عدلیہ کے خلاف، ججز کے خلاف آڈیوز کی بھرمار ہوئی، تصاویر جاری کی گئیں، اس ہاؤس میں پلے کارڈز اٹھائے گئے، ہم کسی جج کو پسند کرنے یا نہ پسند کرنے کی بات نہیں کرتے، ہم ادارے کی بات کرتے ہیں، ادارہ فیصلہ کرتا ہے، وہ کسی کا ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم پارلیمنٹ میں آئین کی پابندی نہیں کریں گے تو ریاست کیسے چلے گی، انتظامیہ اور ریاست اس طرح سے کام نہیں کرے گی تو پھر ہمارا مستقبل کیا ہوگا، آئین عوام اور ریاست کا وہ رشتہ جوڑتا ہے جہاں آپ کی جان و مال، عزت و آبرو اور آپ کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوگا، اگر یہ تحفظ حاصل نہیں ہوگا تو پھر یہ ریاست ستیلی ماں بن جاتی ہے، وہاں پھر وہی ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے جہاں کسی کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کوئی محفوظ نہیں ہے، جس کو دل کرتا ہے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، زیر حراست تشدد کیا جا رہے ، ہم نے اس ملک کا کیا حال بنا دیا ہے، لہو لہو ہے آج یہ مملکت۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، آج اس ایوان کی روح بھی زخمی ہے، جو اپنے ارکان کو تحفظ نہیں دے سکتا اس سے بندہ کیا امید رکھے، عوام کیا امید رکھے جہاں ایک سابق وزیراعظم، ملک کا مقبول لیڈر، سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ کے گھر پر چڑھ دوڑتے ہیں، کیا یہ جموریت کی عکاسی کرتا ہے، کونسا آئین و قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔

’ملک نہیں چل رہا، یہ ملک اس طرح سے نہیں چل سکتا‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ دنوں ہم نے پنجاب میں فسطائیت دیکھی، یہاں احتجاج کرنے والے پختونوں کو دہشت گرد کہا گیا، آپ کیا اس طرح سے ملک کی کوئی خدمت کر رہے ہیں، وہ پختون آج بھی ملک کے لیے خون دے رہے ہیں، ان پر ڈرون حملے ہوں، ان کا خون بہائیں اور بہتا دیکھیں اور پھر بھی آپ ان کو دہشت گردی کہیں، یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ہم ہاتھ توڑدیں گے، میں نگران وزیراعلیٰ کو کہتا ہوں کہ وہ ہاتھ توڑیں نہیں بلکہ ہاتھ جوڑیں اور معافی مانگیں کہ انہوں نے اس قوم کے ساتھ ظلم کیا ہے۔

’عمران خان کی کال ہوتی ہے تو لوگ رکاوٹوں کے باوجود پہنچتے ہیں‘

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ انہوں نے ملک کی معیشت کو جس مقام پر پہنچادیا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کہتے ہیں کہ مفت آٹا، یہ مفت آٹا زندگی کا گھاٹا بن چکا ہے ، لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہاہے، کتنی جانیں جا چکی ہیں، کتنے لوگ بھگڈر میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرول پر سبسڈی کا اعلان کرتے ہیں اور پھر آئی ایم ایف سے جھاڑ پڑتی ہے تو جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں، یہ ہے ان کا طرز حکومت، یہ ملک نہیں چل رہا، یہ ملک اس طرح سے نہیں چل سکتا، اس وقت ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد کے لیے بات کرنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت کا خط بھی بطور آئینی سربراہ مملکت اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدرمملکت ملک میں آئین کی خلاف ورزی پر کیا آواز بھی نہ اٹھائے، اس پر بھی آپ ناراض ہوجاتے ہیں، ایک محاذ کھڑا ہوجاتا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ سیاسی جماعتیں عوام سے رشتہ نہیں توڑتیں لیکن عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی اس سیاسی جدوجہد کو ایک نئی منزل تک پہنچاچکی ہے، مینار پاکستان پر جلسے سے پارٹی نے اپنے ہی سابقہ ریکارڈ توڑ دیے، عمران خان کی کال ہوتی ہے تو لوگ تمام رکاوٹوں کے باوجود پہنچتے ہیں، آپ سوچوں پر پہرے نہیں بیٹھا سکتے، آپ جذبہ و جنون کو شکست نہیں دے سکتے، لوگ اس کی بات سنتے ہیں، اس کی بات میں اثر ہے، وہ اپنی نہیں، اپنی قوم اور اپنے ملک کی بات کر رہا ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ پی ٹی آئی کسی قسم کا انتشار نہیں چاہتی، تحریک انصاف الیکشن چاہتی ہے، ملک میں انتشار پیدا کرکے الیکشن سے فرار کے رستے ڈھونڈے جا رہے ہیں، جب بھی تاریخ لکھی جائے تو اسپیکر قومی اسمبلی کی جماعت کو آئین بنانے کا سب سے زیادہ کریڈٹ دیا جائے گا.

ان کا کہنا تھا کہ اس آئین نے ملک کی تمام اکائیوں کو اکٹھا رکھا ہوا ہے، ہم نے اس دستور کو شاہراہ دستور تک محدود کردیا ہے، صرف شاہراہ نظر آرہی ہے، دستور نظر نہیں آرہا، اس کے ساتھ جڑیں، کسی پختون کو دہشت گرد، کسی بلوچ کو غدار نہ کہیں، اس دوسرے کی تکلیف سنیں، زخموں پر مرہم رکھیں، آگ پر پانی ڈالیں، پیٹرول نہ ڈالیں جو اب ویسے بھی نہیں ملتا۔

انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ جب بھی کوئی لیڈر مقبول ہوتا ہے اس کی جان کو خطرہ ہوجاتا ہےجیسے آج عمران خان کو خطرہ ہے، اس سے قبل ذوالفقار بھٹو، بینظیر بھٹو نے بھی ان خدشات کا اظہار کیا تھا پھر کیا ہوا، ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا ہے۔

شہزاد وسیم نے کہا کہ آئیں، آئینی اور قانونی فریم ورک میں مل کر ساتھ بیٹھیں، الیکشن کے راستے کی بات کریں، آگے بڑھنے کی بات کریں، ملک میں استحکام کی بات کریں، جب تک ملک میں الیکشن نہیں ہوگا سیاسی استحکام نہیں آئے گا اور جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا، معاشی استحکام بھی نہیں آئے گا۔

ہم نے پی ٹی آئی کو حکومت کو گرایا، اسے دوبارہ کبھی حکومت میں بیٹھنے نہیں دیں گے، مولانا اسعد محمود

وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلی کو توڑا گیا اور سپریم کورٹ نے اس کو بحال کیا، اسی روز چاہیے تھا کہ صدر مملکت، وزیر اعظم اور اسپیکر کے خلاف آرٹیکل چھ لگایا جاتا، کیوں نہیں لگایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جھوٹا بیانیہ بنایا کہ قمر باجوہ نے میری حکومت گرائی، پھر کہا گیا کہ محسن نقوی نے حکومت گرائی اور آج جس امریکا پر حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگایا جا رہا تھا اس کی لابنگ فرموں کی خدمات لی جا رہی ہیں کہ امریکا کے لیے قابل قبول ہوجائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی آئی کو حکومت کو گرایا اور خاطر جمع رکھیں ہم کبھی بھی آپ کو دوبارہ حکومت میں نہیں بیٹھنے دیں گے، پی ٹی آئی اب ہہودی نواز امریکیوں کی کوئی ٹوئٹ فائدہ نہیں دے سکتی، یہاں اسرائیلی ہم نواؤں کی حکومت کبھی نہیں آئے گی، جو غلطیاں ہوئیں، وہ سزا بھگت رہے ہیں، جو تمہیں اقتدار میں لانے والے تھے، وہ اپنے کردار کے حوالے سے معافیاں مانگ رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو لانے والے ہم تھے، یہ نکملے تھے، حکومت نہیں چلا سکتے تھے، انہوں نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ملک کو تباہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو عدلیہ کہتی ہے کہ آئین کی تشریح کی اجازت سپریم کورٹ کو ہے، آئین لکھنے کی اجازت سپریم کورٹ کو نہیں ہے، میں چاہتا ہوں کہ اسپیکر ججز کو بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کبھی کہا کہ پارٹی سربراہ کا فیصلہ پارٹی کا فیصلہ ہوگا اور کبھی کہا کہ پارلیمانی لیڈر کا فیصلہ حتمی ہوگا، جب حمزہ شہباز کے بارے میں فیصلہ آیا تو عدلیہ اس کی طرف ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کے ترلے کر رہے ہیں تو ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ یہ آپ کے غم کے چراغ ہیں جو بھی جل رہے ہیں، کبھی بجھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرتے، الیکشن کمیشن کا کام الیکشن کرانا ہے اور سپریم کورٹ کا کام انصاف دینا ہے، مداخلت کرنا ان کا کام نہیں ہے، اگر ان سے مداخلت جیسے الفاظ قوم سنے گی، اگر یہ ایوان آرمی چیف کو اپنی کمیٹیوں میں طلب کرسکتا ہے تو پھر آپ عدلیہ کے ججز کو بھی طلب کرسکتے ہیں کہ کیوں ملک میں سیاسی بحران پیدا کیا، پہلا کردار ثاقب نثار تھا اور آج بھی اس کے پیروکار اس کی پیروی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہمارا اتحاد بنا تو صاف شفاف الیکشن کے لیے بنا،ہم جد و جہد کر رہے تھے، عدالت من پسند فیصلے کر رہی تھی، علی وزیر کو جیل بھیجا گیا، ایک نمبر پٹھان کے لیے آئین نے عدلیہ کا دروازہ نہیں کھٹکھایا لیکن دو نمبر پٹھانوں کے لیے آئین عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس ملک میں جو افرا تفری پیدا کی جارہی ہے، پی ٹی آئی نے جو مینار پاکستان سے اپنی تحریک کا آغاز کیا، یہ اصل میں الیکشن ملتوی ہونے کا جشن تھا، ان کو بھی پتا ہے کہ ہمارے ساتھ آنے والے الیکشن میں کیا ہوگا، آج آپ جن کی پیروی کر رہے ہیں، وہ اپنی کسی بات کی لاج نہیں رکھتا، وہ آپ کی بھی کسی بات اور عزت کی لاج نہیں رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ ذولفقار بھٹو کو پھانسی دی گئی جسے عدالتی قتل سے تعبیر کیا گیا، بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، ہمارے اراکین اسمبلی کو شہید کیا گیا، اس وقت تو انسانی حقوق کی تنظیموں کو تشویش نہیں ہوئی، وہ عمران خان کے لیے میدان میں آجاتی ہیں کہ ہمیں تشویش ہے، تمہیں تشویش ہوگی، ہم تمہیں تشویش دلائیں گے۔

’وہ کون لوگ ہیں جو خفیہ اداروں کے اندر کی معلومات عمران خان کو دے رہے ہیں‘

اسعد محمود نے کہا کہ سادہ لباس میں دہشت گرد زمان پارک میں بیٹھے ہیں، عدالت نے کیوں حکم نہیں دیا کہ انہیں واپس کرو، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں کو اپنے کردار سے فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم عالمی ایجنڈوں کو پاکستان میں چلنے نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ریکارڈ پر ہے کہ فیصلے پسند، نا پسند کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں، لیکن جب فیصلوں سے پہلے سیاسی بیانات آئیں گے تو پھر اس پر سیاست دان ضرور تبصرہ کرے گا کہ منصف کو انصاف دینا چاہیے، منصف کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی سینیٹرز کی جانب سے شور شرابہ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم آج بھی اس عزم کے ساتھ یہاں کھرے ہیں کہ تم چیختے چلاتے رہوں گے، تمہیں آئندہ حکومت تک رسائی کے لیے 40 سال تک جدوجہد کرنی پڑے گی، عالمی دنیا کے اس آخری مہرے کو ہم زمین بوس کریں گے، ہم تمہاری سیاست میں آخری کیل ٹھونکیں گے، تم اپنی سیاست کے دوام کے لیے آرمی، ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف جسٹس بھی اپنا چاہتے ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں عمران خان کو وزیراعظم تسلیم کرنے کے بدلے خیبر پختونخوا کی حکومت دینے کی پیش کش کی گئی جسے ہم نے ٹھکرا دیا۔

وفاقی وزیر نے سوال اٹھایا کہ وہ کون لوگ ہیں جو خفیہ اداروں کے اندر ہونے والے خفیہ اجلاسوں کی معلومات عمران خان کو فراہم کر رہے ہیں۔

مولانا اسعد محمود کی تقریر کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اجلاس کی کارروائی 10 اپریل دن گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024