رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 68 فیصد کمی
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2023 کے ابتدائی 8 ماہ میں 68 فیصد کم ہو کر 3.8 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا جو گزشتہ برس اسی دوران 12 ارب ڈالر تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فروری کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بڑی کمی دیکھی گئی جو گزشتہ برس کے 51 کروڑ 90 لاکھ کے مقابلے میں 7 کروڑ 40 لاکھ تک آگیا، جو فروری 2021 کے بعد ماہانہ بنیاد پر سب سے کم خسارہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق سالہ بہ سال کی بنیاد پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 86 فیصد کم ہوگیا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کی وجہ درآمدات میں کمی جبکہ بڑے پیمانے پر برآمدات یا ترسیلات نہ ہونا ہے، تاہم ادائیگی کے توازن میں ملکی معیشت کے بیرونی محاذ پر واضح بہتری کی علامات ظاہر ہوئی ہیں اور حکومت زرمبادلہ کے ذخائر میں بدترین کمی کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے میں بھی ناکام رہی۔
عارف حبیب لمیٹڈ میں ریسرچ کے سربراہ طاہر عباس کا کہنا تھا کہ سالانہ بنیاد پر خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ مجموعی درآمدات میں 24 فیصد کمی ہے، تاہم مجموعی برآمدات اور ترسیلات بھی سالانہ بنیاد پر بالترتیب 19 فیصد اور 9 فیصد کم ہوئی ہیں۔
فروری میں خسارہ جنوری کے 23 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں بہت کم تھا، اس کمی نے مالی سال 2023 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا رجحان بنایا ہے اور گزشتہ برس کے مقابلے میں کئی گنا کم خسارے کے ساتھ سال کا اختتام ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.4 ارب تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2023 میں 6 ارب ڈالر کے قریب ہوسکتا ہے، یہ اعداد و شمار ملک کے لیے ایک مسئلہ ہیں جیسا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مالی سال 2023 کے اختتام تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا بندوبست کیا جائے۔
پاکستان کو چین سے بروقت امداد ملی جو 70 کروڑ ڈالر اور 50 کروڑ ڈالر کی صورت میں ملی، جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی اور یہ بڑھ کر 10 مارچ کو 4.3 ارب ڈالر ہوگئے تھے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے دوست ممالک قرض کی توسیع میں ہچکچا رہے ہیں کیونکہ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کی رقم ڈوب سکتی ہے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے حال ہی میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرلی ہیں، ان شرائط کے تحت حکومت نے شرح سود 20 فیصد بڑھا دیا، جس سے ملکی تجارت اور صنعت پر اثر پڑا اور مہنگائی بھی 30 فیصد ہوگئی۔
مالی خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت نے ترقیاتی بجٹ کم کردیا لہٰذا معاشی نمو سست ہوئی اور اس ملک میں بے روزگاری سر اٹھانے لگی۔
حکومت برآمدات بڑھانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن میں مسائل ہیں کیونکہ جولائی سے فروری کے دوران برآمدات کے مقابلے میں درآمدات دوگنا ہوگئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران 37.88 ارب ڈالر کی اشیا درآمد کی گئیں جبکہ اسی دوران 18.639 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں، اسی دوران سروسز کی مد میں درآمدات 5.118 ارب ڈالر تھیں جبکہ اسی مد میں برآمدات 4.778 ارب ڈالر تھیں، حکومت بڑے پیمانے پر تجاری خسارے کی وجہ سے اس خسارے کو ختم نہیں کرپائی۔
اس ضمن میں بتایا گیا کہ مالی سال 2023 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران اشیا کی درآمدات میں تقریباً 10 ارب ڈالر کی کمی آئی اور برآمدات میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی کمی آئی، کم برآمدات اور زیادہ درآمدات کی وجہ سے بیرونی محاذ پر توازن قائم نہیں کیا جاسکا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2023 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران اشیا اور خدمات کی مد میں توازن تجارت میں خسارہ 19 ارب ڈالر تھا جس کے مقابلے میں گزشتہ برس 29.8 ارب ڈالر تھا۔