پی ٹی آئی کا لاہور اور اسلام آباد میں پارٹی رہنماؤں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے کا دعویٰ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں پولیس نے رات گئے پارٹی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’اس وقت اسلام آباد اور لاہور میں ایک، دو، درجنوں نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے سیکڑوں کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں اور اس وقت سیکڑوں کارکن پولیس کی تحویل میں ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب عذاب الہیٰ کو دعوت دے رہے ہیں، 10، 10 سال کے بچوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، عورتوں پر تشدد کیا گیا ہے، لوگوں کے گھروں میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ہے‘۔
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے رات گئے کی جانے والی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسلام آباد پولیس نے پارٹی رہنما سینیٹر شبلی فراز کے گھر پر چھاپہ مارا ہے اور ان کے گھر کی تلاشی لی گئی۔
ٹوئٹ کے مطابق پولیس نے شبلی فراز کے اہل خانہ اور ملازمین کو ہراساں کیا جبکہ وہ خود گھر پر موجود نہیں تھے اور مبینہ طور پر تشدد اور بدترین شیلنگ کے باعث ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما علی نواز اعوان نے بھی دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’ابھی اسلام آباد پولیس نے میرے گھر پر چھاپہ مارا ہے الحمدللہ میں محفوظ ہوں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انشا اللہ ہم ایسے ہتھکنڈوں سے نہ پہلے گھبرائے تھے نہ اب گھبرائیں گے، منزل کے حصول تک ہماری جدوجہد جاری ہے۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے گزشتہ شب دعویٰ کیا تھا کہ ’اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے‘۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’تحریک انصاف کے ورکرز کی گرفتاریاں اور ان کے گھر والوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے‘۔
دوسری جانب لاہور میں پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے بھی اپنی رہائش گاہ پر پولیس کے چھاپے اور عملے کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’ہمارے گھر پر موجود سٹاف کو پولیس بغیر کسی وارنٹ کے اغوا کر کے لے گئی ہے. کیمرے بھی توڑے اور سامان بھی ساتھ لے گئے ہیں، ایسے لگتا ہے بلوائیوں نے ہلہ بولا ہو‘۔
قبل ازیں انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پولیس مجھے گرفتار کرنے کے لیے میرے گھر کے باہر موجود ہے۔
پولیس کی جانب سے بدترین فاشزم کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، عمران خان
دریں اثنا چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھی اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’پولیس کی بدترین فاشزم‘ قرار دیا۔
انہوں نے رات گئے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’اسلام آباد میں پولیس کی جانب سے بدترین فاشزم کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، پی ٹی آئی کارکنوں کو اغوا کرنے کے لیے پولیس وارنٹ کے بغیر گھروں پر چھاپے مار رہی ہے، جہاں کارکن موجود نہیں ہے وہاں 10، 10 سال کی عمر کے بچوں کو اٹھایا جارہا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے تمام کارکنوں اور ان کے بچوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں جنہیں اغوا کیا گیا ہے‘۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بھی پی ٹی آئی کے سیکڑوں کارکنان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا اور اسے حکومت کی بدترین فسطائیت قرار دیا۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’تحریک انصاف کے سیکڑوں کارکن گرفتار کرلیے گئے ہیں، ملک میں بدترین فسطائیت ننگا ناچ رہی ہے اور عدلیہ بے بس نظر آتی ہے‘۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ’عوام میڈیا، عدلیہ اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ بدترین فسطائیت کے سامنے کھڑے ہوں ورنہ یہ ملک ایسے راستے پر ہے کہ واپسی نہیں ہو گی، خدا پاکستانیوں کی حفاظت کرے‘۔
واضح رہے کہ توشہ خانہ کیس میں پیشی کے لیے عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس آمد کے موقع پر پارٹی کارکنان کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے الزام میں گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی سمیت پارٹی کے متعدد رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ 2 روز قبل عمران خان توشہ خانہ کیس کی سماعت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچے تو اسلام آباد پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان گھنٹوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے دوران 25 افراد زخمی ہوگئے جبکہ موٹر سائیکلوں سمیت 30 گاڑیوں اور ایک پولیس چوکی کو نذر آتش کردیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پرتشدد جھڑپوں کے دوران پولیس اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے ایک دوسرےکو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، پی ٹی آئی نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگانے کے لیے پٹرول بموں کے ساتھ ساتھ پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔
جوڈیشل کمپلیکس پر ہجوم پی ٹی آئی قیادت کی کال پر اکٹھا ہوا تھا جنہوں نے کارکنان کو جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے کی کال دینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔
امن و امان کو برقرار رکھنے اور ہجوم کو جوڈیشل کمپلیکس تک پہنچنے سے روکنے کے لیے تقریباً 4 ہزار پولیس اہلکار (جن میں 700 ایف سی اور ایک ہزار پنجاب پولیس کے اہلکار بھی شامل تھے) کمپلیکس کے اندر اور اس کے اطراف میں تعینات کیے گئے تھے۔
علاوہ ازیں جوڈیشل کمپلیکس سے ملحقہ سروس روڈ پر بھی کنٹینرز لگا دیے گئے تھے، علاقے کو گھیرے میں لینے کے لیے خاردار تاریں اور رکاوٹیں بھی لگائی گئی تھیں، پولیس اہلکاروں سمیت اینٹی رائٹس ٹیم کو بھی جوڈیشل کمپلیکس میں تعینات کیا گیا تھا۔
جھڑپوں کے دوران دارالحکومت انتظامیہ نے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی بھی نافذ کر دی تھی، 25 پولیس اہلکار اور 5 شہریوں سمیت تقریباً 30 زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا، شام 6 بجے کے قریب عمران خان جوڈیشل کمپلیکس سے واپس روانہ ہوگئے تھے لیکن ان کے جانے کے بعد آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت تک جوڈیشل کمپلیکس کا ماحول میدان جنگ بنا رہا۔
پولیس کے پی آر او نے کہا کہ پولیس اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا تھا کہ عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس آمد کے دوران اسلام آباد کا امن و امان متاثر نہیں ہونا چاہیے، تاہم پی ٹی آئی کارکنان نے انتشار کی صورتحال پیدا کی اور پولیس پر حملہ کیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انتشار پھیلانے میں ملوث پی ٹی آئی کے متعدد کارکنان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔