پڑوسی ملک والے کہتے ہیں کیا ’آئٹم‘ لگ رہی ہے؟ آمنہ الیاس
متعدد فلموں میں ’آئٹم سانگس‘ میں پرفارمنس کرکے مداحوں کے دل جیتنے والی اداکارہ آمنہ الیاس کا ماننا ہے کہ ’آئٹم‘ لفظ پڑوسی ملک سے آیا ہے اور یہ کوئی اصطلاح نہیں ہے، برابر والے ملک کے لوگ لڑکیوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ کیا ’آئٹم‘ لگ رہی ہے۔
ماڈل و اداکارہ نے حال ہی میں ایکسپریس ٹی وی کے شو ’دی ٹاک ٹاک‘ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے فلمی کیریئر پر کھل کر بات کی اور بتایا کہ کس طرح انہیں سانولی رنگت کی وجہ سے میڈیا میں مشکلات پیش آئیں۔
ماڈل نے پروگرام میں بتایا کہ انہیں ان کی رنگت کی وجہ سے کیریئر میں مشکلات پیش آئیں اور ابھی تک انہیں مشکلات درپیش آتی ہیں جب کہ انڈسٹری میں ایسی باتیں ہونا معمول کی بات ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس لڑکی کا قد کتنا لمبا ہے لیکن اصل بات رنگت کی ہے اور انہیں ان کی سانولی رنگت کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں۔
آمنہ الیاس کا کہنا تھا کہ اگر وہ خوبصورت ہیں اور سانولی لڑکیاں اپنی جسامت اور رنگت سے مطمئن ہوتی ہیں اور وہ خود کو خوبصورت ہی تصور کرتی ہیں لیکن شوبز انڈسٹری کے بنائے گئے معیارات کے مطابق وہ خوبصورت نہیں ہوتیں۔
انہوں نے مثال دی کہ اگر ٹیلی وژن کے اداکاروں پر نظر دوڑائی جائے تو تمام اداکار و اداکارائیں ایک ہی طرح کی رنگت، جسامت اور قد کی حامل ہوں گی، یعنی ٹی وی پر آںے کے لیے ایک طرح کا معیار سیٹ کردیا گیا ہے کہ فلاں سائز، جسامت اور قد کی لڑکی ہوگی تو وہ ٹی وی پر نظر آئے گی۔
آمنہ الیاس نے اعتراف کیا کہ انہیں ڈراموں میں کام کی پیش کش کم ہوتی ہے، تاہم ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ انہیں فلموں میں زیادہ کام کی پیش کش ہوتی ہے۔
ساتھ ہی اداکارہ کا کہنا تھا کہ لیکن پاکستان میں کوئی بھی اداکار صرف فلموں میں کام کرکے کیریئر نہیں چلا سکتا، کیوں کہ پاکستان کی فلم انڈستری چھوٹی ہے، یہاں زیادہ سے زیادہ ایک اداکار دو سال میں ایک فلم میں کام کر سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ بعض مرتبہ سوچتی ہیں کہ وہ صرف فلموں میں ہی کام کریں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسا کرکے کیریئر کو آگے نہیں بڑھا سکتیں۔
پروگرام کے دوران انہوں نے فیمنزم پر بھی بات کی اور کہا کہ وہ خود کو فیمنسٹ نہیں مانتیں لیکن وہ خواتین کی خودمختاری اور حقوق کی بات کرتی ہیں اور کرتی رہیں گی۔
آمنہ الیاس کا کہنا تھا کہ فیمنزم سے متعلق غلط روایات اور خیالات کی وجہ سے وہ خود کو فیمنسٹ نہیں کہتیں۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے نعرے کو پاکستان میں فحاشی اور عورتوں کے لباس سے جوڑ دیا گیا ہے، حالانکہ مذکورہ نعرہ گھریلو تشدد اور ریپ جیسے واقعات سمیت کئی طرح کے انقلابی کاموں سے تعلق رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا آسان مطلب ہے کہ شادی شدہ عورت کو اس کی اجازت کے بغیر ان کا شوہر بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
آمنہ الیاس نے شو میں ’آئٹم‘ سانگس پر بھی بات کی اور کہا کہ ’آئٹم‘ سانگس کو ’آئٹم‘ کہنا ہی غلط ہے، مذکورہ اصطلاح درست نہیں، یہ لفظ پڑوسی ملک سے آیا ہے، جہاں لڑکیوں کو دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ کیا ’آئٹم‘ لگ رہی ہو۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں گانوں میں خواتین کے رقص کو پرفارمنس کہنا چاہئیے اور ڈانس پرفارمنس میں کوئی غلط بات نہیں، آئٹم سانگس پر تنقید کرنے والے لوگ گھروں میں شادیوں پر بھی گانوں پر ڈانس کرتے ہیں۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ ہولی وڈ میں بھی میوزک پر اداکارائیں پرفارم کرتی ہیں لیکن وہاں ان پر تنقید نہیں کی جاتی، گانوں میں خواتین کے رقص کو برداشت کرنے یا نہ کرنے کا تعلق سماج سے ہے۔