دہشت گردی کا خدشہ، سیکیورٹی ایجنسیوں کی فی الوقت عام انتخابات نہ کروانے کی تجویز
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات پر بدستور بے یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، فوجی اور سویلین انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے بھی اس وقت دونوں صوبوں میں عام انتخابات کے انعقاد کی مخالفت سامنے آگئی ہے۔
ڈان اخبارکی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس ہوا جس میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لیے سیکیورٹی انتظامات پر غور کیا گیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے اجلاس کی صدارت کی، جس میں الیکشن کمیشن کے حکام اور دونوں صوبوں کے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انسداد دہشت گردی کے محکموں (سی ٹی ڈی) کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اس پیشرفت سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سی ٹی ڈی کے تمام نمائندوں نے متفقہ رائے دی کہ دہشت گردی کی تازہ لہر کی وجہ سے یہ انتخابات کے لیے مناسب وقت نہیں ہے، انٹیلی جنس رپورٹس بتارہی ہیں کہ دونوں صوبوں میں مزید حملوں کا خدشہ ہے۔
آئی ایس آئی کے ایک نمائندے نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی وجہ سے انتخابات کو 3 سے 4 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا، انٹیلی جنس بیورو پنجاب کے جوائنٹ ڈائریکٹر نے پنجاب میں افغانستان سے آنے والے مسلح عسکریت پسندوں کی موجودگی سے آگاہ کیا۔
انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کہنا تھا کہ ملک ایک مشکل سیکیورٹی صورتحال سے گزر رہا ہے جس کا ثبوت دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ اضافہ ہے، کثیر جہتی سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر عام انتخابات کا انعقاد ایک بڑا خطرہ ہوسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے شرکا کو بتایا کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کا انعقاد آئینی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں ہونے چاہئیں تاہم انتظامی پیچیدگیوں کی صورت میں اس مدت میں کم سے کم تاخیر کی اجازت ہے۔
مذکورہ اجلاس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں امن و امان کی موجودہ صورتحال اور دیگر متعلقہ امور کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی گئی، جس کا مقصد دونوں صوبوں میں پرامن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا تھا۔
اجلاس کے اختتام پر چیف الیکشن کمشنر نے شرکا سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بریفنگ پرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے مختلف فیصلے کرنے میں مدد دے گی۔
گزشتہ روز وزارت دفاع اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے نمائندوں کے ساتھ اجلاس بھی ہونا تھا تاہم اس کا انعقاد نہ ہوسکا، الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ اجلاس اب 14 مارچ کو ہوگا، اسی روز الیکشن کمیشن نے گورنر خیبرپختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے مدعو کیا ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئی تھیں، قانون کے تحت اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں تاہم الیکیشن کمیشن کو اس حوالے سے پہلے روز سے ہی ہر طرف سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
25 جنوری کو الیکشن کمیشن نے 9 اپریل سے 17 اپریل تک دونوں اسمبلیوں کے لیے انتخابات کرانے کی تجویز پیش کی تھی، دونوں صوبوں کے پرنسپل سیکریٹریز کو بھیجے گئے علیحدہ علیحدہ خطوط میں الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 9 سے 13 اپریل اور خیبرپختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کے درمیان انتخابات کرانے کی تجویز دی تھی، ساتھ ہی یہ نشاندہی بھی کہ گئی تھی کہ پنجاب میں یہ انتخابات 13 اپریل سے اور خیبرپختونخوا میں 17 اپریل سے مزید آگے نہیں بڑھائے جاسکتے۔
ان خطوط کے جواب میں دونوں صوبوں کے گورنرز نے صوبائی اسمبلیوں کو عام انتخابات کی تاریخیں دینے سے انکار کر دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے مشاورت کرے اور فیصلہ کرنے سے پہلے موجودہ سیکیورٹی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لے۔
خیال رہے کہ متعلقہ وزارتیں معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز اور سیکیورٹی کی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر انتخابی ڈیوٹیوں کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے بھی انکار کرچکی ہیں۔
علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کو درپیش ایک اور چیلنج گورنر پنجاب کا یہ مؤقف ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ نہیں دیں گے کیونکہ انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی۔
اس حوالے سے صدر عارف علوی کی جانب سے الیکشن کمشین کو مشاورت کی پیشکش کی گئی تھی جسے الیشکن کمیشن نے ٹھکرا دیا تھا، تاہم اس صورتحال نے اس وقت ایک اور دلچسپ موڑ اختیار کرلیا جب صدر عارف علوی نے یکطرفہ فیصلہ دیا کہ انتخابات کی تاریخ 9 اپریل مقرر کی جائے۔
یکم مارچ کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ پنجاب میں انتخابات کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے گورنر غلام علی سے مشاورت کرے تاکہ انتخابات 90 روز کے مقررہ وقت یا کم سے کم ممکنہ تاخیر کے ساتھ منعقد کرائے جا سکیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو خط لکھا جس میں 30 اپریل سے 7 مئی کے درمیان پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تجویز دی گئی، جواب میں صدر عارف علوی نے اسی روز پولنگ کی تاریخ 30 اپریل مقرر کردی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول جاری کردیا۔
الیکشن کمیشن نے گورنر خیبوپختونخوا کو بھی ایک خط بھیجا تھا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے نامزد کردہ ٹیم نے ان کی دعوت پر مشاورت کے لیے ان سے ملاقات کی تھی، تاہم گورنر خیبپختونخوا نے کہا کہ وہ حتمی مشاورت کے لیے آئندہ ہفتے الیکشن کمیشن آئیں گے۔
دریں اثنا الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے انتخابی افسران بیوروکریسی سے لے لیے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ضلعی انتظامیہ سے ہے۔
خواتین اور اقلیتی نشستوں کے لیے بھی الیکشن کمیشن نے صوبائی الیکشن کمشنر سعید گل کو ریٹرننگ افسر مقرر کردیا ہے۔