مقدمات کے فیصلوں اور ٹرائل میں تاخیر کی وجہ سے نیب ترامیم کی گئیں، وزیرقانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) میں مقدمے تو بنتے ہیں لیکن ان کے فیصلے نہیں ہوتے، ٹرائل میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے نیب ترامیم کی گئیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون میں پہلے لکھا گیا کہ ٹرائل 30 روز میں ہوگا اور پھر لکھا کہ 90 روز میں ہوں گے لیکن فیصلے ہوتے نظر نہیں آئے۔
وزیر قانون نے کہا کہ نیب میں پسند اور اختیارات کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے مقدمے بنائے جاتے تھے اور جس پر بھی ہاتھ ڈالنا ہوتا تھا تو اس کے خلاف نیب انکوائری شروع کر دی جاتی تھی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نیب پر سیاسی انجنیئرنگ کا الزام بھی آیا جس پر اعلیٰ عدلیہ نے بھی کہا کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، جس پر پارلیمان نے اپنا اختیار استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے یہ کہہ رہے تھے کہ کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہے جس سے بریت ہو جائے گی بلکہ یہ بنیادی طور پر فوراً تبدیل ہوگا اور چند ہی ایسے مقدمات ہوں گے جن کو عدالت مناسب سمجھ کر بند کرے گی۔
وزیر قانون نے کہا کہ ٹیکنیکل خلل کی وجہ سے متعدد مقدمات نیب میں آکر رک گئے تھے جن کو متعلقہ تفتیشی اداروں میں اور متعلقہ محکموں کی معاونت کے لیے مزید ٹرانسفر کرنے کے لیے یہ ترامیم کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز سمیت دیگر رہنماؤں کی بریت پرانے قوانین کے تحت ہوئی ہیں جنہوں نے کہا کہ ہم نئے قوانین کا فائدہ نہیں لیں گے اسی طرح ان کے خلاف جو دیگر مقدمات زیر سماعت ہیں وہ پرانے قانون کے تحت چل رہے ہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے قوانین میں ایک ہی ترمیم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر چیئرمین نیب نہیں ہوتے تھے تو ڈپٹی چیئرمین کے پاس اختیارات کم ہوتے تھے اور ان کو قائم مقام چیئرمین کے طور پر وضاحت سے بیان نہیں کیا گیا تھا، اس لیے ایک ترمیم کی گئی ہے جس سے ڈپٹی چیئرمین کو قائم مقام چیئرمین کے اختیارات مکمل طور پر حاصل ہوں گے تاکہ مقدمات کی تفتیش نہ رکے۔
جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر اس چیز کا حامی ہوں کہ اگر کسی نے حلف کی پاسداری نہیں کی اور اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو اسے عبرت کا نشان بننا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترازو کے پلڑے برابر نظر نہ آنے کی وجوہات موجود ہیں جس کا خیال تمام لوگوں کے ذہنوں میں ہے، یہ سارا کچھ کس طرح ہوا، یہ معاملہ خود احتسابی سے شروع ہوتا ہے جس پر خود ادارے کو سوچنا چاہیے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بہت سے ایسے جج ہیں جن پر کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی لیکن چار پانچ نام ایسے ہیں جن کے نہ صرف عدالت میں بیٹھے ہوئے بھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے تذکرے ہو رہے ہیں لہٰذا اس کا تدارک ہونا چاہیے۔