کبھی آرمی چیف یا شہباز شریف کو بات کرنے کی دعوت نہیں دی، عمران خان
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے کبھی آرمی چیف یا شہباز شریف کو بات کرنے کی دعوت نہیں دی۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی اردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے پوچھا گیا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ بات کرے تو کیا آپ اس سے بات کریں گے تو میں نے کہا میں سیاسی آدمی ہوں چوروں کے سوا سب سے بات کروں گا‘۔
ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے کبھی آرمی چیف یا شہباز شریف کو بات کرنے کی دعوت نہیں دی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ خبریں چل رہی ہیں کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں ہے، ملک کے عوام جس جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں اسے بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ان سے سوال کیا گیا کہ فوجی قیادت تبدیل ہونے سے اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں فرق آیا ہے؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا۔
’نئے آرمی چیف کے آنے سے سختیاں بڑھ گئی ہیں‘
عمران خان نے مزید کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ نئے آرمی چیف کے آنے سے تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ سختیاں بڑھ گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے دور میں ہم پر مقدمات درج ہوئے اس سے پہلے سینئر لوگوں پر زیر حراست اتنا تشدد کبھی نہیں ہوا۔
خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے بےیقینی کی صورت حال پر ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے تاریخ دے دی ہے لیکن بظاہر لگ رہا ہے کہ حکومت الیکشن نہیں کرانا چاہتی‘۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر قسم کے بہانے بنائے جارہے ہیں کہ الیکشن کیوں نہیں ہونے چاہیے اور مجھے خوف ہے کہ یہ کسی بڑی شخصیت کو قتل کروا دیں گے جیسے بینظیربھٹو کا ہوا تھا، ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح الیکشن سے جان چھوٹے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات نہ ہوئے تو ’یہ توہینِ عدالت ہو گی، آئین اور سپریم کورٹ کے جج کہتے ہیں، اگر یہ انتخابات نہیں کرائیں گے تو آئین اور قانون ختم ہو جائے گا‘۔
سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ چاہتے ہیں میں نااہل ہوجاؤں یا جیل چلا جاؤں اور پھر یہ الیکشن جیت جائیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم حکومتی جماعتوں کے خلاف ہو چکی تھی اس لیے مجھے 2018 کے انتخابات میں کامیابی ملی تھی، اب جو مہنگائی ہوئی ہے اس سے تو یہ جماعتیں بالکل دفن ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں ملک کا بھی فائدہ ہے کہ عوام کو انتخاب کرنے دو کہ وہ کِسے چاہتے ہیں، جو حکومت آئے گی وہ مسائل حل کرے گی۔
چوہدری پرویز الہٰی کو پی ٹی آئی کا صدر بنانے سے متعلق سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی نے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ برداشت کیا، وہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ رہے اس لیے انہیں عزت دینے کے لیے پارٹی کا عہدہ دیا۔
اپنی صحت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میری ٹانگ میں جو زخم ہیں ان کی صحت یابی کی رفتار سست ہے، ڈاکٹروں نے چلنے اور کھڑے رہنے سے منع کیا تھا لیکن میں لاہور اور اسلام آباد کی عدالت گیا پر وہاں سیکیورٹی نہیں تھی، وزرات داخلہ نے بھی کہا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے اور مجھے بھی معلوم ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے‘۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ ہمارے وکیل نے عدالت سے کہا تھا کہ سیکیورٹی کی ضمانت دیں ورنہ ویڈیو کانفرنس کر لیں، جو آج کل ہوتی ہے، مجھ پر 70 سے زائد مقدمات بنائے گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے خلاف کیسز کی نوعیت عجیب ہے جو عدالت میں جاتے ہی ختم ہو جائیں گے۔
اپنی گرفتاری سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ چاہتے ہیں میں انتخابی مہم نہ چلاؤں، یہ کپتان کے بغیر ہی میچ کھیلنا چاہتے ہیں‘۔