لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 25 فیصد کردیا گیا
حکومت نے 860 ٹیرف لائنز کو کور کرتے ہوئے جدید ترین موبائل فونز، درآمد شدہ خوراک، ڈیکوریشن آئٹمز اور دیگر لگژری اشیا پر مشتمل 33 کیٹیگریز پر سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بدھ کی رات گئے 2023 کا ایس آر او 297 جاری کیا تاکہ آئی ایم ایف کی قسط حاصل کرنے کے لیے ایک ارب 70 کروڑ روپے کے ٹیکس ریونیو اقدامات کے آخری حصے کو نافذ کیا جا سکے۔
حکومت پہلے ہی دو مرحلوں میں 14 فروری اور یکم مارچ کو ٹیکس اقدامات نوٹیفائیڈ کر چکی ہے۔
درآمد شدہ خوراک کے زمرے میں جن لگژری آئٹمز پر 25 فیصد سیلز ٹیکس لگے گا ان میں کنفیکشنری، جیمز اور جیلی، مچھلی اور فروزن مچھلی، چٹنی، کیچپ، پھل اور خشک میوہ جات، محفوظ شدہ میوہ جات، کارن فلیکس، منجمد گوشت، جوس، پاستا، ہوا والا پانی، آئس کریم اور چاکلیٹ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مکمل طور پر تیار یونٹس (سی بی یو) حالات میں گاڑیاں، سینیٹری اور باتھ روم کا سامان، گھریلو سامان، کاسمیٹکس، کراکری، پالتو جانوروں کا کھانا، نجی ہتھیار اور گولہ بارود، جوتے، فانوس اور لائٹنگ (سوائے انرجی سیورز)، ہیڈ فون اور لاؤڈ اسپیکر، دروازے اور کھڑکی فریم، سفری بیگ اور سوٹ کیس، سینیٹری ویئر، قالین (سوائے افغانستان کے)، ٹشو پیپر، فرنیچر، شیمپو، پر تعیش گدے اور سلیپنگ بیگ، باتھ روم کا سامان، بیت الخلا کی چیزیں، ہیٹر، بلورز، دھوپ کے چشمے، کچن کا سامان، سگریٹ، شیونگ کا سامان، بیش قیمت چمڑے کا سامان، موسیقی کے آلات، سیلون کی اشیا جیسے ہیئر ڈرائر وغیرہ، اور آرائشی سامان بھی شامل ہے۔
ٹیکس کی زائد شرح کتے اور بلی کے کھانے پر بھی لاگو ہوگا جبکہ ایک جہاز جسے تفریح یا لطف یا نجی استعمال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہو، زیورات اور کلائی کی گھڑیوں کے سامان پر بھی لاگو ہوگی۔
مقامی طور پر تیار کردہ اشیا کی سپلائی پر بھی جی ایس ٹی بڑھا کر 25 فیصد کر دیا گیا۔
اس کے علاوہ مقامی طور پر تیار کردہ یا اسمبل شدہ ایس یو ویز اور سی یو ویز، مقامی طور پر تیار یا اسمبل شدہ گاڑیاں جن کی انجن کی گنجائش 1400 سی سی اور اس سے زیادہ ہو اور مقامی طور پر تیار یا اسمبل شدہ ڈبل کیبن (4 بائی 4) پک اپ گاڑیاں شامل ہیں۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے گزشتہ ماہ فنانس (ضمنی) بل 2023 کے ذریعے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط کی جلد ادائیگی کو محفوظ بنانے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ گزشتہ اقدامات کو پورا کرنے کے لیے آئندہ ساڑھے چار ماہ میں اضافی 170 ارب روپے اکٹھے کرنے کے لیے ٹیکس اقدامات متعارف کرائے تھے۔